Maktaba Wahhabi

220 - 239
ماں کی دعا ایک معزز خاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی۔ اسماعیل ایک متقی شخص اور جلیل القدر عالم تھے۔ انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے تھے۔ اس مبار کشادی کا پھل میاں بیوی کو ایک نامی گرامی بچے کی صورت میں ملا جس کا نام انہوں نے ’’محمد‘‘ رکھا۔ شادی ہوئے ابھی چند ہی برس گزرے تھے کہ شیخ اسماعیل بیوی اور چھوٹے بچے کو داغِ مفارقت دے گئے اور وراثت میں کافی دولت چھوڑ گئے۔ والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت میں جت گئیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم دین بن کر افق عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کر دے، لیکن ان کی حسرت و یاس کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ان کے بچے کی مستقبل میں ترقی اور ان کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ بچپن ہی میں ان کا یہ بچہ اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب نابینا ہو جانے کے باعث یہ بچہ حصولِ تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا۔ وہ حصول علم کے لیے دوسرے شہروں کا سفر بھی اختیار نہ کر سکتا تھا۔ ماں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا ہو گا، عالم دین کیونکر بن سکے گا، بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی تھا، ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ دعا کا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دعا کے دروازے کھول دیے اور وہ پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربار الٰہی میں گڑگڑا کر رونے لگی اور اللہ رب العزت کے سامنے دست سوال دراز کر کے بچے کی بینائی کے لیے دعائیں مانگنے لگی .... یہ دعائیں نہ جانے کتنی مدت تک ہوتی رہیں کہ ایک رات اس نے عجیب و غریب خواب دیکھا۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام
Flag Counter