سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی
ایک مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی ایک لونڈی کے کہنے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگنے کے لیے حاضر ہوئے۔ شادی سے متعلق بات کرنا چاہتے تھے مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و جلال کے سبب آپ ایک لفظ بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کہہ سکے اور دل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیغامِ نکاح آنا شروع ہو چکے تھے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گم صم اپنے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا:
( (مَا جَائَ بِکَ؟ أَلَکَ حَاجَۃٌ۔))
’’کس بات سے میرے پاس آئے ہو؟ کیا کوئی ضرورت ہے۔‘‘
اس سوال پر بھی دل کی باتیں دل میں دب کر رہ گئیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ شاید وہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں رات دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا ہوں ۔ بچپن سے جوانی تک کے سارے ایام میں نے آپ ہی کے ہمراہ گزارا ہے۔ میرے اخلاق و کردار اور میرے جملہ حالات و مسائل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ واقفیت ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ میں خود اپنی ہی زبان سے شادی کی پیشکش کروں ؟ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھتے تو خود ہی میرا انتخاب فرما لیتے۔ میری زندگی صاف و شفاف آئینے کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔ غرض جو کچھ بھی وہ سوچتے ہوں گے مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید ان کی آمد کا مقصد بھانپ لیا اور ارشاد فرمایا:
|