حاضرین اسٹیرنگ پر ڈرائیور کو جلتا ہوا دیکھتے رہے
ایک مرتبہ میں ریاض کی ایک معروف ٹرانسپورٹ کمپنی ’’الدخیل‘‘ میں نمازِ تراویح پڑھا کر چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دوران گفتگو یہ بات نکل پڑی کہ اگر انسان غور سے اپنے آپ کو دیکھے اور نظامِ کائنات کا مطالعہ کرے تو معلوم ہو گا کہ اس کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں ہے۔ وہ دنیا کمانے کے لیے انتہائی مشقت سے محنت مزدوری کرتا ہے اور دنیا کے سارے حادثات سے بچ کر بھی رہتا ہے تو ایک دن موت اسے اپنی آغوش میں آلیتی ہے۔ بہت سارے لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ ہزاروں خواہشیں اپنے سینے میں دبائے رات دن حصولِ تمنا کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ، مگر اچانک ایکسیڈنٹ وغیرہ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی خواہشات سمیت دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔ ہر آدمی نے اپنی بے شمار خواہشات کی تکمیل کے لیے پردیس میں اپنی جوانی اور جان کو داؤ پر لگا رکھا ہے اور اسے آخرت کی چنداں فکر نہیں ہے۔ جبکہ آخرت ہی کی زندگی سب کچھ ہے اور اسی کے لیے محنت و کوشش کرنے والے لوگ ہی کامیاب و کامران اور با مراد ہیں ۔
ابھی اس قسم کی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ مذکورہ کمپنی میں ڈرائیونگ کے عہدے پر کام کرنے والے محمد ارشد نامی ہندوستانی ساتھی نے اپنی کمپنی کے ایک بنگلہ دیشی کے ایکسیڈنٹ کا درد ناک واقعہ بتایا جس کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس حادثے کے جائے وقوع پر موجود مذکورہ کمپنی ہی کے محمد سیلانی حیدر آبادی نے بھی اس درد انگیز حادثہ کی چشم دید روداد بیان کی۔
ہماری کمپنی میں مرشد عالم نامی ایک غیر شادی شدہ ۲۸ سالہ بنگلہ دیشی بڑا ٹرک چلایا کرتا تھا۔ وہ سعودی عرب میں تین سال گزارنے کے بعد اپنے وطن میں پہلی چھٹی ۶ ماہ گزار کر
|