Maktaba Wahhabi

222 - 239
قانون کی بالادستی مکہ مکرمہ میں فاطمہ نام کی ایک عورت تھی، وہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ لوگوں سے عاریتاً سامان لے لیتی اور پھر واپس کرنے سے انکار کر دیتی۔ نیز وہ لوگوں کا سامان اور مال چرایا بھی کرتی تھی۔ ایک بار اس نے چوری کی۔ جب مقدمہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ مخزومی عورت کے ہاتھ کاٹے جانے کا فیصلہ سن کر قریش کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی کیونکہ وہ ایک اونچے خاندان کی اعلیٰ نسب والی خاتون تھی۔ سردارانِ قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اس عورت کی سفارش کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے کے لیے کس شخصیت کا انتخاب کیا جائے۔ غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معاملہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرنے کی جرأت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں ۔ چنانچہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سفارش کے لیے درخواست کی گئی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی سفارش کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی، مگر ان کی بات سن کر رنج اور غصے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( (أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ؟)) ’’کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بہت پریشان ہوئے، عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ میری بخشش کی دعا فرما دیں ۔ جب شام کا وقت ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور
Flag Counter