اللہ تعالیٰ کی بالٹی!
ایک مرتبہ ندی کے کنارے (جو کہ میری بستی کے قریب ہی ہے اور کَرتاہا کے نام سے مشہور ہے) ایک کٹھن جگہ سے میں نے اپنی موٹر سائیکل بآسانی نکال لی، جبکہ وہاں سے سوار ہو کر گزرنا دشوار تھا۔ میرے پیچھے سیٹ پر میرا سات سالہ بچہ دانش بھی بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے بطورِ تعلیم اس سے پوچھا: بیٹا! اس مشکل ترین راہ سے آسانی کے ساتھ موٹر سائیکل کس نے نکالی؟ وہ میری کمر میں کھود کر کہنے لگا: ابا نے، ابا نے، میں نے بتایا: بیٹا! اللہ تعالیٰ نے ہمیں بچایا ہے، بندے کا سارا کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا: اچھا بیٹا! یہ بتلاؤ کہ اللہ کہاں ہے؟ وہ کہنے لگا: آسمان میں ۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ آسمان کے اوپر عرش ہے، اسی پر اللہ تعالیٰ ہے، وہیں سے اپنی ساری مخلوق کی خبر رکھتا ہے۔
اس کے بعد ہم باپ بیٹا خاموش ہو گئے اور ہماری گاڑی منزل کی طرف اپنی رفتار سے بڑھتی رہی۔ اچانک میرے کانوں سے یہ آواز ٹکرائی: ابو ابو! اللہ میاں کی بالٹی کتنی بڑی ہے؟
میں نے حیرت سے پوچھا: بیٹا! یکا یک یہ اللہ میاں کی بالٹی کا خیال آپ کو کیسے آگیا؟
معصوم دانش کی طرف سے جواب ملا: میں سوچتا ہوں کہ اللہ میاں کی بالٹی بہت بڑی ہو گی، تب ہی تو اللہ تعالیٰ ایک بالٹی پانی انڈیل دیتے ہیں تو چھر چھر (موسلا دھار) بارش ہونے لگتی ہے!!
مجھے اس معصوم کی مفکرانہ سمجھ پر ہنسی بھی آ رہی تھی۔ میں نے سمجھایا: بیٹا! اللہ میاں کسی بالٹی کے ذریعے بارش نہیں برساتے، بلکہ اس نے ہر کام کے لیے الگ الگ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ۔ لوگوں کی روحیں قبض کرنے کے لیے بھی ایک فرشتہ مقرر ہے جسے ملک الموت کہتے ہیں ، لوگوں کے اعمال کا نوٹس لینے کے لیے بھی فرشتے مقرر ہیں ، قیامت قائم ہو گی تو
|