اٹھارہ سال کی عمر میں طلاق
گھر کے باغیچے میں پانی کے ساتھ کھیلنے والی میں چھ سال کی بچی تھی، لیکن میری گڑیا اس وقت سے لے کر آج تک میری رفیقہ حیات ہے۔ میں اس کے بغیر سو بھی نہیں سکتی، بلکہ جب میں اسے نیا ڈریس پہناتی ہوں یا اس کے بالوں میں کنگھی کرتی ہوں تو خوشیوں سے جھوم اٹھتی ہوں ۔
میں خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار ملا۔ زندگی بڑے ہی خوشی اور پر سکون انداز سے گزر رہی تھی کہ وہ دن بھی آگیا جب امی نے مجھے بتایا کہ پڑوسی کے بیٹے کی طرف سے تمہاری شادی کا پیغام آیا ہے اور شاید تم کو معلوم نہ ہو کہ وہ ایک بڑی کمپنی کا مالک ہے، تم دونوں ہنی مون کے لیے ملک سے باہر جاؤ گے اور اللہ نے چاہا تو تم خوش رہو گی اور کل ہم لوگ خریداری کے لیے جائیں گے۔
سچ یہ ہے کہ میں شادی کے مفہوم سے واقف ہی نہیں تھی، سوائے ان باتوں کے جسے امی جان نے بتایا کہ سفر خوشحالی،، ہر دن خریداری، میں نے سوچا کوئی بات نہیں ، دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی آگیا جب میں خوبصورت کپڑوں ، جو اہرات اور سونے چاندی کے زیورات سے لدی کسی کی بیوی بن گئی۔ پھر ہنی مون کے لیے یورپ چلی گئی۔ شروع شروع میں دن اور راتیں بڑی خوبصورتی سے گزرتی رہیں ، ہر طرف فرح و سرور اور سعادت وخوشحالی ہی تھی۔
لیکن ایک ایک کر کے حقائق اس وقت کھلنا شروع ہوئے جب ہم اپنے ملک واپس لوٹے تو پتا چلا کہ نہ تو میرے شوہر نے اپنی تعلیم مکمل کی جیسا کہ ہم کو بتایا گیا تھا اور نہ ہی وہ کوئی کام کرتے ہیں بلکہ ان کی زندگی کا سارا دارومدار ان کے باپ کے دیے ہوئے پیسوں پر تھا اور نہ ہی ان کو نماز و روزے سے مطلب تھا اور نہ ہی انہیں مسجد کے راستے کا پتا تھا۔ مجھے اس بات کی بہت زیادہ فکر نہیں تھی کہ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی یا وہ کوئی کام نہیں کرتے
|