نازک مزاجی کا پاس و لحاظ
ایک مرتبہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
( (یَارَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ لَوْ نَزَلْتَ وَادِیًا وَفِیْہِ شَجَرَۃٌ قَدْ أُکِلَ مِنْھَا وَوَجَدْتَ شَجَرَۃً لَمْ یُؤْکَلْ مِنْھَا، فِیْ أَیِّھَا کُنْتَ تُرْتِعُ بَعِیْرَکَ۔))
’’اے اللہ کے رسول! آپ اگر کسی ایسی وادی میں اتریں ، جہاں ایک درخت ملے جس سے کچھ کھا لیا گیا ہو، اور ایک دوسرا درخت (ایسا) آپ کو ملے جس سے نہیں کھایا گیا ہو تو پھر آپ اپنا اونٹ کس درخت میں چرائیں گے۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( (فِی الَّذِیْ لَمْ یُرْتَعْ فِیْھَا۔))
’’میں اپنا اونٹ اس درخت میں چراؤں گا جس سے نہیں کھایا گیا ہو۔‘‘[1]
چونکہ ازواج مطہرات میں صرف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری تھیں ، اس لیے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرکے اپنی اہمیت بتانا چاہی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی نازک مزاجی اور ان کے جذبات کا لحاظ رکھا اور انہیں خوش کن جواب دے کر خوش کر دیا۔
در اصل عورت ایک ایسے پھول کا نام ہے جو تھوڑی سی بھی رطوبت و یبوست کی کمی و زیادتی برداشت نہیں کرتا اور مالی کی آنکھوں کے سامنے ہی پل بھر میں مرجھا جاتا ہے۔ اس لیے عورت کی نازک مزاجی کا خیال رکھنا شوہروں پر واجب ہے۔ جس طرح عورتوں کو حکم ہے کہ وہ شوہروں کے مزاج کا خاص لحاظ رکھیں اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں ، اسی طرح شوہروں کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کی نازک مزاجی کا پورا پورا خیال رکھیں اور ان کے جذبات کو مجروح نہ کریں ، کہ یہ آبگینے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں ۔
|