Maktaba Wahhabi

105 - 239
مَاعِزًا، فَوَاللّٰہِ! اِنِّی لَحُبْلَی۔)) ’’اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کیوں واپس کر رہے ہیں ؟ شاید آپ میرے معاملہ کو اسی طرح ٹال رہے ہیں جیسے ماعز کو واپس کیا تھا، اللہ کی قسم! میں زنا کے سبب حاملہ ہوں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی تم پر حد نہیں لگائی جا سکتی، جاؤ بچہ جننے کے بعد آنا۔‘‘ بچے کے پیدا ہونے کے بعد غامدیہ اسے ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگیں : میں نے یہ بچہ جنم دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اور بچے کو دودھ پلاؤ، جب یہ دودھ چھوڑ دے تب آنا۔‘‘ جب بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا تو غامدیہ اسے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ وہ کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول! یہ بچہ ہے، اب یہ دودھ چھوڑ چکا ہے اور خوراک لینے لگا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ ایک مسلمان کے حوالے کیا اور گڑھا کھودنے کا حکم دیا۔ غامدیہ کے سینے کے برابر گڑھا کھودا گیا (اور ان کے اوپر ان کے کپڑے باندھ دیے گئے)، پھر آپ نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ لوگوں نے انہیں پتھر مارنا شروع کر دیے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی ایک پتھر ان کے سر پر دے مارا۔ خون کے چھینٹے جب ان کے چہرے پر پڑے تو ان کی زبان سے غامدیہ کے بارے میں نازیبا الفاظ نکل گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہی تھے، ان کے الفاظ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( (مَھْلًا یَا خَالِدُ! فَوَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ! لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ۔)) ’’خبردار خالد! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا بھی ویسی توبہ کرلے تو اس کی بھی بخشش ہو جائے۔‘‘ [1]
Flag Counter