اس قاضی کے لیے ہلاکت ہے!
یوسف کوفی کہتے ہیں کہ میں نے دوران طواف ایک شخص کو دیکھا کہ وہ دعا کر رہا ہے:
( (اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَ مَا أَرَاکَ تَفْعَلُ))
’’اے اللہ! مجھے معاف فرما دے، مگر لگتا نہیں ہے کہ تو مجھے معاف کرے گا۔‘‘
میں اس کے قریب ہوا اور اس سے کہا:
( (مَا أَعْجَبَ یَأْسُکَ مِنْ عَفْوِ اللّٰہِ!))
’’اللہ کی بخشش اور معافی سے ناامید ہوتے ہو، تم پر تعجب ہے؟!‘‘
کہنے لگا: میں ایک بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ، اس لیے مجھے اپنی معافی کی امید نہیں ہے۔
میں نے اس سے پوچھا: مجھے بھی بتاؤ۔
اس نے اپنا قصہ کچھ اس طرح بیان کیا:
میں یحییٰ بن محمد کے ساتھ موصل کی بغاوت کو فرو کرنے والوں میں شامل تھا۔ جمعے کا دن تھا۔ ہم نے بہت سارے لوگوں کو قتل کیا اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ اب ایک منادی کرنے والے نے حاکم کی طرف سے اعلان کیا کہ جو شخص اپنے گھر میں بیٹھ جائے اور اطاعت قبول کر لے اس کو امان دی جاتی ہے۔ اس کے گھر اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص گھر سے نہ نکلے۔
بے شمار لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے، میں اس وقت نوجوان تھا۔ اقتدار اور قوت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ میں نے ایک گھر کا انتخاب کیا اور تلوار لہراتا ہوا اس میں جا گھسا۔ اس گھر میں میاں بیوی اور ان کے دو بیٹے تھے۔ خاوند سامنے آیا۔ اس نے مجھ سے سوال و
|