شکاری خود شکار ہو گیا!
ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ فضالہ بن عمیر بن مُلَوَّح لیثی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا چاہا۔ آپ فتح مکہ کے سال خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ جب فضالہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: أَفُضَالَۃُ؟ کیا تم فضالہ ہو؟
فضالہ نے عرض کی: ہاں اے اللہ کے رسول! میں فضالہ ہی ہوں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ( (مَاذَا کُنْتَ تُحَدِّثُ بِہٖ نَفْسَکَ؟))
’’تم نے اپنے دل کے اندر کیا منصوبہ بنا رکھا ہے؟‘‘
فضالہ نے عرض کی: کچھ نہیں میں تو اللہ کا ذکر کر رہا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِسْتَغْفِرِ اللّٰہَ‘‘ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو۔‘‘
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت فضالہ بن عمیر کے سینے پر رکھ دیا، چنانچہ ان کا دل پرسکون ہو گیا اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس کے بعد حضرت فضالہ کہا کرتے تھے:
( (وَ اللّٰہِ! مَا رَفَعَ یَدَہٗ عَنْ صَدْرِیْ حَتّٰی مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ شَیْئٌ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْہُ))
’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے سے نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ میری نگاہ میں اللہ کی مخلوق میں ان سے زیادہ محبوب کوئی نہ رہا۔‘‘
(ماخوذ از سنہرے حروف، عبدالمالک مجاہد)
٭٭٭
|