( (سُبْحَانَ اللّٰہِ! یَا اُمَّ الرَّبِیْعِ الْقِصَاصُ کِتَابُ اللّٰہِ))
’’اللہ پاک ہے، اے ام ربیع! بدلہ تو اللہ کا فیصلہ ہے۔‘‘
جیسا کہ اللہ کی کتاب میں ہے:
﴿اَلسِّنُّ بِالسِّنِّ﴾ دانت کے بدلے میں دانت توڑ کر بدلہ لیا جائے گا۔ یہ سن کر ام ربیع رضی اللہ عنہا متواتر کہنے لگیں :
( (لَا، وَ اللّٰہِ لَا یَقْتَصُّ مِنْہَا اَبَدًا))
’’نہیں اللہ کی قسم! اس (ام حارثہ) سے کبھی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔‘‘
قارئین کرام! آخر کار زخمی عورت کے ورثا جو ’’بدلہ بدلہ‘‘ کرتے آئے تھے، وہ دیت یعنی دانت کے بدلے میں معاوضہ لینے کے تیار ہو گئے۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( (اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ مَنْ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ))
’’بلاشبہ اللہ کے بندوں (ولیوں ) میں سے ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے کوئی اللہ پر قسم اٹھا لے تو اللہ ان کی لاج رکھ لیتا ہے۔‘‘
یعنی ام ربیع رضی اللہ عنہا جو قسمیں کھا کھا کر کہہ رہی تھیں کہ بدلہ نہیں لیا جائے گا تو ایسا نہیں کہ وہ شرعی حکم کو ماننے سے انکار کر رہی تھیں ، ان پاکباز لوگوں کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ ان یعنی ام ربیع رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ہمارے لیے کوئی راستہ نکالے گا اور انہیں اپنے رب پر اس قدر بھروسا اور ’’مان‘‘ تھا کہ انہوں نے اللہ کی قسم کھا لی اور متواتر کھائے جا رہی تھیں ۔ چنانچہ اللہ نے ان کا مان رکھ لیا اور وارثوں کے دلوں کو بدل دیا اور وہ دیت پر یعنی معاوضہ لینے پر راضی ہو گئے .... یہ شہداء کے مخلص ورثاء کا اکرام تھا جو اللہ نے کیا اور ایک شہید کی نانی اور ماں کی کرامت و عزت کی لاج رکھ لی، یقیناً اللہ ہی لج پال ہے، کوئی بندہ نہیں ہے۔
(ماخوذ از مومن عورتوں کی کرامات، امیر حمزہ)
|