رعایا کی نگرانی
ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ پہنچا۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا:
( (ہَلْ لَّکَ أَنْ نَحْرِسَہُمْ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ۔))
’’کیا آپ اس بات سے راضی ہیں کہ ہم دونوں مل کر تجارت کی غرض سے مدینہ منورہ آنے والے اس قافلے کی آج کی رات نگرانی کریں ۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں ! میں آپ کے ساتھ یہ کام انجام دینے کو تیار ہوں ۔ چنانچہ دونوں مل کر رات کو اس قافلے کی نگرانی کرنے لگے اور باری باری نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ اسی دوران امیر المومنین کے کانوں میں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپ اس آواز کی طرف لپکے اور اس کی ماں سے فرمایا:
( (اِتِّقِ اللّٰہَ وَأَحْسِنْ اِلٰی صَبِیِّکَ۔))
’’خاتون! اللہ سے ڈرو اور اپنے بچے کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
خاتون سے یہ کہہ کر امیر المومنین اپنی جگہ پر لوٹ گئے اور قافلے کی نگرانی میں مشغول ہو گئے۔ رات کا بیشتر حصہ گزر چکا تھا۔ صبح صادق نمودار ہوا چاہتی تھی۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ بادِ سحر کی لطیف ہوائیں ابھی کچھ ہی دیر قبل شروع ہوئی تھیں ، کہ اتفاق سے امیر المومنین کے کانوں سے پھر ایک بچے کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ امیر المومنین آواز کی طرف چلے۔ دیکھا تو اتفاق سے وہی بچہ رو رہا تھا جس کی ماں کو اس کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت آپ کر چکے تھے۔ آپ نے پھر اس کی ماں سے فرمایا:
|