سو احادیث سنانے کی شرط
ابن ابی ذر کا بیان ہے کہ جب حجاج کرام مکہ مکرمہ آتے تو سفیان بن عیینہ باب بنی ہاشم کے پاس ایک بلند جگہ پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کا مشاہدہ کرتے۔ ایک مرتبہ علم حدیث سے شغف رکھنے والا ایک شخص سفیان بن عیینہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے روبرو بیٹھ کر عرض کیا:
( (یَا اَبَا مُحَمَّدٍ! حَدِّثْنِیْ))
’’اے ابو محمد! مجھ سے حدیث بیان کریں ۔‘‘
سفیان بن عیینہ نے اس سے چند احادیث بیان کیں ۔ اس نے مزید تقاضا کیا اور سفیان بن عیینہ نے اس کی خواہش پوری کی۔ اس نے مزید حدیثیں بیان کرنے کی درخواست کی۔ سفیان بن عیینہ نے اس کی بار بار کی درخواست سن کر اس کے سینہ میں ہاتھ سے ذرا سا دھکا دیا۔ وہ بلند جگہ پر بیٹھا تھا۔ نیچے وادی کی طرف لڑھک گیا اور اسی میں جا گرا۔ حجاج کرام میں جب اس کی خبر عام ہوئی تو وہ وادی میں گرے ہوئے شخص کے اردگرد اکٹھا ہو گئے اور کہنے لگے:
’’سفیان بن عیینہ نے ایک حاجی کو مار ڈالا۔‘‘
جب حجاج کرام کے درمیان اس سلسلہ میں چہ میگوئیوں نے طول پکڑا تو سفیان بن عیینہ ڈر گئے اور افسوس کرنے لگے کہ کیوں کر ہم نے بیچارے کو دھکا دیا؟ پھر وہ نیچے اتر کر وادی میں گئے اور گرے ہوئے شخص کا سر اپنی گود میں رکھ کر پوچھا:
( (مَالَکَ؟)) ’’تجھے کیا تکلیف پہنچی ہے؟‘‘
وہ آدمی اپنا پاؤں مسلسل ہلائے جا رہا تھا اور منہ سے جھاگ نکالے جا رہا تھا۔ یہ
|