گری پڑی لڑکی
ایک دن کی بات ہے ایک ۳۵ سالہ خاتون فون کر کے اپنا واقعہ بیان کرتی ہے کہ میں نے تنہا ایک بزرگ آدمی اور عورت کے درمیان زندگی گزاری ہے اور جب چودہ سال کی ہوئی تو مکمل قرآن حفظ کر چکی تھی، پھر ایک دن ہمارے گھر دو عورتیں ہم سے ملنے کے لیے آئیں اور کہنے لگیں : ہم تمہارے نام اور خاندان کی تصحیح کے لیے آئے ہیں اور تمہیں ان حقائق سے آگاہ کرنے آئے ہیں جن کا جاننا تمہارے لیے ضروری ہے۔ تم کیسے یہاں رہتی ہو؟ جس کو تم ابو کہتی ہو وہ تمہارے ابو نہیں ہیں اور جن کو تم امی کہتی ہو وہ تمہاری امی نہیں ہیں ۔ اور دو آدمی بھی آئے ہمارے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کہنے لگے: تم تعلیم میں سیکنڈری میں پہنچ جاؤ گی، اس لیے نام کا بدلنا ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ رہو گی یا یتیم خانہ جاؤ گی۔ یہ سن کر میرے والد جنہوں نے میری تربیت کی تھی گھبرا گئے جسے میری آنکھوں نے دیکھ اور دل نے محسوس کیا۔ میں نے ان کے سر کو چوما اور کہا: میں اپنے والدین کے ساتھ رہوں گی۔ میرے والد سجدہ شکر میں گر گئے کہ میں ان کے ساتھ ہی رہوں گی۔ جب میں سولہ سال کی عمر میں سیکنڈری کے تیسرے سال میں پہنچی تو میرے والد، جنہوں نے میری تربیت کی تھی، انتقال کر گئے۔ پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی وراثت کا مطالبہ کرنے لگے جو بہت زیادہ تھی، کیونکہ اللہ نے انہیں مال و دولت سے نوازا تھا۔
میں اور میری والدہ اتنے بڑے گھر میں تنہا نوکروں اور ڈرائیوروں کے ساتھ رہتے تھے، کوئی بھی ہمیں پوچھنے والا نہیں تھا اور اب وراثت کی بات چھڑ گئی تو میں کہاں جاؤں گی، کیونکہ میں اصلاً ان کی بیٹی نہیں تھی۔ میرے ذہن میں کچھ خیال آیا: میں نے ان سے کہا: اپنے والد کی تھیلی اور کاغذات میں تم لوگوں کو نہیں دوں گی بلکہ انہیں عدالت میں قاضی کے سامنے
|