یہ ایک نہیں ، دس درہم کا بھکاری ہے!
ایک مرتبہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک بھکاری آیا اور اس نے ان سے بھیک مانگی۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ سائل کو ایک درہم دے دو۔ جب بھکاری ایک درہم لے کر چلا گیا تو وہاں موجود حاضرین عبداللہ بن مبارک سے کہنے لگے، ابوعبدالرحمن! یہ بھکاری لوگ تو لوگوں سے مانگ مانگ کر دوپہر کے کھانے میں بھنا ہوا گوشت اور فالودہ نوش کرتے ہیں ، آپ کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ اسے تھوڑی سی کھانے کی کوئی چیز یا روٹی کا کوئی ٹکڑا وغیرہ دے دیتے، بھلا آپ نے اسے ایک درہم دینے کا حکم کیوں دے دیا؟
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنے غلام سے فرمایا:
( (یَا غُلَامُ! رُدَّہُ، اِنَّمَا ظَنَنْتُ أَنَّھُمْ یُجِیْزُوْنَ بِالبَقْلِ وَالخَلِّ عِنْدَ غَدَائِھِمْ، فَأَمَّا اِذَا کَانَ غَدَاؤُہُمْ بِالشَّوَائِ وَالفَالُوجِ فَلَا بُدَّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاھِمَ))
’’بچے! اس سائل کو واپس میرے پاس لاؤ۔ میں تو سمجھتا تھا کہ یہ لوگ کھانے میں سبزی اور سرکے (وغیرہ) پر اکتفا کرتے ہوں گے، مگر جب ان کا دوپہر کا کھانا بھنا ہوا گوشت اور فالودہ ہے تو (بھلا ایک درہم میں کیا ہو گا؟) اسے دس درہم دینا ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک درہم کا نہیں بلکہ دس درہم دیے جانے کے لائق بھکاری ہے، چونکہ اس کے اخراجات زیادہ ہیں ۔‘‘
چنانچہ آپ نے اس بھکاری کو دس درہم دینے کا حکم فرمایا۔ [1]
|