Maktaba Wahhabi

80 - 239
باز کے آشیانے میں چغد کے آباد ہونے کا انجام ایک مرتبہ میں نے ایک عربی جامعہ کے فارغ التحصیل کو اپنی کتاب کا مسودہ ٹائپ کرنے کے لیے دیا۔ اس میں سورۃ النجم کی آیت (۵۰) ﴿وَأَنَّہُ أَھْلَکَ عَادَ نِ الْأُوْلٰی﴾ کا ترجمہ لکھنا بھول گیا۔ اس صاحب نے خود ہی اپنے اجتہاد سے اس آیت کا ترجمہ یوں لکھ دیا: ’’اور عاد نے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔‘‘ جبکہ یہ ترجمہ بالکل ہی غلط ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’اور اسی (اللہ) نے عادِ اولیٰ (قومِ ہود) کو ہلاک کر دیا۔‘‘ معلوم ہوا کہ ہر کام ہر آدمی کے بس کا نہیں ۔ اسی لیے عربی محاورہ ہے: ( (اِنَّ لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ))’’ہر فن کے لیے الگ الگ ماہرین ہوا کرتے ہیں ۔‘‘ ہر آدمی میں ہر قسم کی خوبیاں نہیں ہوا کرتیں ۔ کسی میں معاشرتی اصلاح کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے تو کوئی اصلاح کے الف سے بھی واقف نہیں ہوتا۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی ادارے کے ذمہ دار پر واجب ہے کہ وہ ذمہ داری سونپتے وقت پہلے خوب جانچ پڑتال کرے کہ کیا واقعی جس آدمی کو ذمہ داری سونپی جا رہی ہے وہ اس کو اچھی طرح انجام دینے کے قابل ہے بھی یا نہیں ۔ نیز اس ذمہ داری کو سونپتے وقت قرابت داری اور رشتے داری کی ذہنیت سے بالا تر ہو کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، ورنہ لائق و فاضل لوگوں کی موجودگی میں قرابت کے جھٹکے میں ذمہ داری سونپے گئے نالائق و نا اہل لوگ اقتدار سنبھالتے ہی اس ذمہ دارانہ منصب کا جنازہ نکال دیں گے۔ اسی لیے جب باز کے آشیانے میں چغد آباد ہو جائیں اور بلبل کی جگہ زاغ و زغن کو حاصل ہو جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا انتظار ایمان و عقیدہ کا ایک حصہ بن جاتا ہے: ( (اِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ اِلٰی غَیْرِ أَھْلِہِ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ)) ’’جب نالائق و نا اہل کو ذمہ داری سونپ دی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ [1]
Flag Counter