Maktaba Wahhabi

161 - 239
گھر کے اندر شہادت کی موت ابوداؤد کی روایت جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے، یہ روایت ابن سعد کی کتاب ’’الطبقات‘‘ میں بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے غزوہ کی جانب روانہ ہونے لگے تو ام ورقہ رضی اللہ عنہا عرض کرنے لگیں : ’’اے اللہ کے رسول! مجھے بھی غزوہ میں اپنے ساتھ جانے کی اجازت دے دیجیے۔‘‘ میں وہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت عطا فرما دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے گھر میں ہی رہ، اللہ تجھے شہادت عطا فرمائیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد ام ورقہ لوگوں میں ’’شہیدہ‘‘ یعنی شہید خاتون مشہور ہو گئیں ۔ حضرت ام ورقہ قرآن کی تلاوت بکثرت کیا کرتی تھیں ۔ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام تھا اور ایک باندی تھی، آپ نے ان دونوں کے بارے میں یہ طے کر دیا تھا کہ ان کی وفات کے بعد یہ دونوں غلام مرد اور عورت آزاد ہوں گے .... ایسے ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا کہ ان دونوں مذکورہ مرد اور عورت نے رات کے وقت حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور شہید کر دیا اور خود راتوں رات وہاں سے چلے گئے۔ صبح ہوئی، ان کی موت کی خبر پھیلی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا اور ان میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جو بھی ان دونوں کو دیکھے یا اسے ان کے بارے میں کوئی خبر ہو تو انہیں پیش کرنے میں کردار ادا کرے۔ چنانچہ یہ دونوں گرفتار ہوئے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دونوں کو سولی پر لٹکانے کا حکم دیا۔ چنانچہ مدینہ میں سولی پر لٹکانے کا آغاز ان دو قاتلوں سے ہوا۔ میری بہنو! حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے عزت و شرف اور شہادت و کرامت سے نوازا، اس لیے کہ شہادت ان کی دلی آرزو اور خواہش تھی .... اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter