قبولیت
عبدالرحمن بن زیاد بن انعم محدث تھے۔ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ سمندر میں سفر کر رہے تھے کہ رومی بحری قزاقوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور قسطنطنیہ لے گئے۔ بے گناہ لوگوں کو اعلیٰ حکام کے آرڈر پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ کچھ عرصہ قید میں پڑے رہے کہ اسی دوران عیسائیوں کی عید آ گئی۔ انہوں نے قیدیوں کو عید کے دن بہتر سے بہتر کھانا کھلایا اور ٹھنڈے اور گرم سے تواضع کی۔ کھانا عام دنوں کے مقابلہ میں کافی زیادہ تھا۔ مسلمان قیدی اس سے خوش ہو گئے۔ اس اچھے سلوک کی خبر ایک عیسائی عورت کو ہوئی تو وہ تلملا اٹھی۔ فوراً بادشاہ کے پاس اس حال میں پہنچی کہ اس نے اپنے کپڑے پھاڑ رکھے تھے۔ اپنے بالوں کو منڈوایا، چہرے کو سیاہ کیا ہوا اور بادشاہ سے کہنے لگی:
ان عربوں نے میرے بھائی، خاوند اور بیٹے کو قتل کیا ہے اور ان کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کہ جیل میں ان کی ضیافتیں ہو رہی ہیں ؟!
بادشاہ نے جب اس کی باتیں سنیں تو غصہ میں آ گیا۔ مسلمانوں کے خلاف تو پہلے ہی تھا اس عورت کی باتوں نے اسے اور بھڑکا دیا۔ حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو میرے حضور پیش کیا جائے۔
تھوڑی دیر کے بعد تمام قیدی بادشاہ کے سامنے لائے گئے۔ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ ایک ایک کر کے تمام کی گردنیں مار دی جاتیں ۔ چنانچہ جلاد نے مسلمان قیدیوں کی گردنیں اڑانا شروع کیں ۔ جب عبدالرحمن بن زیاد کی باری آئی تو ان کے ہونٹ ہلنا شروع ہوئے۔ انہوں نے اپنے رب کو پکارنا شروع کیا۔ دعا شروع ہوئی اور زبان سے نکلا:
( (اَللّٰہُ .... اَللّٰہُ رَبِّيْ لَا أُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا))
’’اللہ ہی میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر سکتا۔‘‘
|