صوفی کا ناچ
ایک مرتبہ سلطان العاشقین ابن فارض نے اپنے ایک مرید کو چند درہم دے کر کوئی کھانے پینے کی چیز خرید کر لانے کے لیے بھیجا۔ مرید کہتا ہے کہ میں خرید کر لایا اور ہم دونوں ساحل کی طرف نکل پڑے۔ وہاں ایک گھر نظر آیا۔ شیخ صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک شخص نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں اندر داخل ہو گئے۔ وہاں گھر میں عورتیں اور نو خیز لڑکیاں گانا گاگا کر دف بجا رہی تھیں ۔ شیخ نے بھی ان کے ساتھ رقص کرنا شروع کر دیا۔ پھر اس کے بعد ہم دونوں نکل کر مصر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ میرے دل میں شیخ کے متعلق کچھ کھٹک رہا تھا۔ مصر پہنچے تو ہمارے پاس وہی شخص آیا جس نے ساحل کے پاس موجود گھر کا دروازہ کھولا تھا۔ اس نے شیخ سے کہنا شروع کیا کہ اس لڑکی (باندی) کی وفات ہو گئی۔ شیخ کہنے لگے: دلال کو فوراً بلاؤ اور میرے لیے ایک باندی خرید کر لاؤ جو اس کے بدلے میں گایا کرے، پھر میرا کان پکڑ کر کہنے لگے: فقیروں پر نکیر نہیں کرتے۔[1]
علامہ عبدالرحمن الوکیل مصری یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’یہ ہے اہل تصوف کا مقدس پیشوا ابن فارض! جو ناچتا ہے گاتا ہے اور لڑکیاں اور عورتیں بھی اس کے ساتھ ناچتی گاتی ہیں ۔ اس کے باوجود اپنے مرید سے کہتا ہے کہ فقیروں پر تنقید نہیں کرتے اور یہی حال تمام صوفیوں کا بھی ہے۔‘‘ [2]
جب صوفیاء کے اخلاقی بحران کا حال یہ ہے تو ان کے درباروں پر مجاور بن کر بیٹھے ہوئے لوگوں کا حال کیا ہو گا.... اندازہ لگائیں ....!؟ در اصل یہ مزارات گانجا، چرس، افیون اور
|