آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
یزید بن عبدالملک کے پاس ایک باغی کو لایا گیا اس نے اس کے خلاف الزامات سنے تو اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ادھر باغی کے منہ سے بے اختیار نکلا:
( (عَسٰی فَرَجٌ یَأْتِیْ بِہِ اللّٰہُ، أَنَّ لَہٗ کُلَّ یَوْمٍ فِیْ خَلِیْقَتِہٖ أَمْرٌ))
’’عنقریب اللہ تعالیٰ میری رہائی کے اسباب مہیا کرے گا کیونکہ ہر روز اس کا اپنی مخلوق کے بارے میں حکم ہوتا ہے۔‘‘
یزید کہنے لگا:
( (وَ اللّٰہِ لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَکَ، اُقْتُلُوْہُ))
’’اللہ کی قسم! میں لازماً تمہاری گردن اتار دوں گا۔ جاؤ اس کو قتل کر دو۔‘‘
سپاہیوں نے اسے قتل کرنے کے لیے سامان اکٹھا کرنا شروع کیا۔ اسے قتل کرنے ہی لگے تھے کہ تابعی بزرگ ہیثم بن اسود نخعی داخل ہوئے۔ یہ کوفہ کے اشراف میں سے تھے، نامور خطیب اور بزرگ شاعر اور ثقہ راوی تھے۔ یزید بن عبدالملک ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ انہوں نے جب اس باغی کو دیکھا تو کہنے لگے:
امیر المومنین! اس مجرم کو مجھے بخش دیں ۔ یزید نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ( (ہُوَ لَکَ)) یعنی ’’یہ آپ کا ہو گیا۔‘‘ اب باغی وہاں سے نکلا اور اس کی زبان پر یہ کلمات تھے:
( (یَأْبَی عَلَی اللّٰہِ، فَأَبَی اللّٰہُ أَنْ یَّقْتُلَہٗ))
’’خلیفہ نے اللہ کو چیلنج کیا اور ایک فرد کو قتل کرنے کی قسم کھائی مگر اللہ نے نہ چاہا کہ اسے قتل کیا جائے۔‘‘
(ماخوذ از سنہرے اوراق ، عبدالمالک مجاہد)
|