میں کسے راضی کروں !
اسکول سے چھٹی ہوئی تو ننھی سی معصوم لڑکی سخت پریشانی کا شکار تھی۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال کے آثار تھے۔ ماں نے بیٹی کا مرجھایا چہرہ دیکھا تو سمجھ گئی کہ اسکول میں ضرور کوئی ایسی بات ہوئی ہے جو میری لخت جگر کو ناگوار گزری ہے۔ والدہ نے مناسب نہ سمجھا کہ بیٹی سے پوچھے مگر اس کا دل بے چین تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد اس سے پوچھے کہ وہ پریشان کیوں ہے۔
کھانے کھانے کے بعد بیٹی نے خود ہی اس خاموشی کو توڑا اور اپنی والدہ کی سوالیہ نظروں کے جواب میں کہنا شروع کیا:
امی! یہ جو میں نے لمبی فراک پہنی ہوئی ہے نا، میری ٹیچر اس کی بدولت مجھ سے سخت ناراض ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ تم بھی دوسری لڑکیوں جیسی چھوٹی فراک پہن کر آؤ اور اگر تم کل پھر اس لمبی فراک میں آؤ گی تو اسکول سے نکال دی جاؤ گی۔
والدہ: میری عزیز بیٹی! مگر یہ لمبی فراک تو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔
بیٹی: امی جان! آپ کی بات درست ہے، لیکن ٹیچر کو یہ (شرعی) لباس پسند نہیں ۔
والدہ: میری پیار بیٹی! یہ درست ہے کہ تمہاری ٹیچر کو تمہارا لباس پسند نہیں اور وہ تمہیں غیر ساتر لباس پہننے کا مشورہ ہی نہیں دیتی بلکہ مجبور کرتی ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ تمہیں اطاعت اور فرمانبرداری کس کی کرنی ہے، اپنی استانی جی کی یا اپنے خالق، مالک، رازق اور معبود کی جس نے تمہیں پیدا کیا، تمہیں خوبصورت شکل و صورت دی، اور تم پر اپنے احسانات اور انعامات کی بارش کر دی۔ بیٹی! کیا تم اپنی ٹیچر کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو گی جو اپنے نفع اور نقصان کی بھی مالک نہیں ، چہ جائیکہ دوسروں کا کچھ بگاڑ یا سنوار سکے، یا اپنے مولا کریم کی
|