اطاعت کرو گی جو نفع و نقصان، عزت و ذلت اور زندگی و موت کا مالک ہے۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم کس کی بات مانو گی اور کس کو راضی کرو گی۔
بیٹی: امی جان! میں ان شاء اللہ اپنے رب کریم کو راضی کروں گی۔
والدہ: میری پیاری بیٹی! مجھے تم سے ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی۔ میں نے تمہاری تربیت اسی انداز میں کی تھی۔
اگلے دن وہ بچی لمبی فراک پہنے اسکول گئی تو ٹیچر پہلے سے بھی زیادہ برہم ہوئی۔ اس کے غیظ و غضب کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ ’’میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ آئندہ یہ فراک پہن کر اسکول نہ آنا۔ تم نے میری نافرمانی کی ہے۔‘‘ وہ غصے سے آگ بگولا ہو رہی تھی۔ ’’تم جیسی لڑکیاں اساتذہ کی نافرمان ہوتی ہیں ۔ تم نے مجھے چیلنج کیا ہے، اب دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں ۔‘‘ ٹیچر غصے میں پھنکارتی چلی گئی۔ کلاس کی لڑکیاں چپ چاپ، سہمی ہوئی، ٹیچر کی گفتگو سن رہی تھیں ۔ انہیں اپنی کلاس فیلو پر غصہ آ رہا تھا کہ اس نے ٹیچر کی بات کیوں نہیں مانی، وہ اس پر اپنی نگاہوں کے نوکیلے تیر برسا رہی تھیں ۔
معصوم بچی پر جب دباؤ زیادہ ہی پڑ گیا، تو وہ اس کی تاب نہ لا کر بے اختیار رونے لگی۔ اب اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ اچانک اس نے اپنی ٹیچر کو مخاطب کیا: ’’میڈم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس کو راضی کروں اور کس کو ناراض۔‘‘
ٹیچر: میرے علاوہ اورکون ہے جس کو تم راضی کرنا چاہتی ہو؟
شاگرد: ہے نا ایک (اس نے معصومیت سے جواب دیا۔)
ٹیچر: کون ہے وہ؟ بتاؤ، فوراً بتاؤ۔
شاگرد: میں نے کہا ہے نا، وہ ایک ہے نا، جس کو میں راضی کرنا چاہتی ہوں ۔
ٹیچر اب غیظ و غضب سے بپھر گئی تھی۔ وہ چلائی: بتاؤ وہ کون ہے؟
بچی نے اپنا ہاتھ اور منہ آسمانوں کی طرف کر دیا اور کہا: میرا رب جو آسمانوں میں ہے جس کو میں راضی کرنا چاہتی ہوں ، میرا اللہ .... میرا اللہ .... میرا اللہ....
|