جواب کرنے چاہے تو میں نے دفعتاً اسے قتل کر دیا۔ اس کی بیوی چیخنے اور چلانے لگی اور مجھ سے امن کی طالب ہوئی۔ میں نے کہا: گھر میں جو کچھ نقدی اور سونا چاندی ہے میرے حوالے کر دو، میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ گھرانہ میری نظر میں خاصا امیر کبیر نظر آتا تھا۔ مجھے یہاں سے خاصی دولت ہاتھ لگنے کی امید تھی۔ وہ عورت اندر گئی اور سات دینار لے کر آ گئی۔
میں نے اس سے کہا:
یہ بہت تھوڑے ہیں ، اور لے کر آؤ۔
عورت نے کہا:
گھر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جو میں تمہیں دو۔
میں نے تلوار اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی اور کہا:
بدبخت! فوراً اندر سے مزید مال لے کر آؤ ورنہ میں تمہارے ایک بیٹے کو اس کے باپ کے پاس پہنچا دوں گا۔
عورت نے ہاتھ جوڑ دئیے اور لگی قسمیں کھانے کہ گھر میں صرف یہی کچھ ہے۔ میں نے اس کا اعتبار نہ کیا۔ اس دوران میں اس کا بیٹا آگے بڑھا تو میں نے اس پر تلوار کا وار کیا اور اسے قتل کر دیا۔ اب میں نے دوبارہ اس عورت سے کہا:
اب بھی تمہارے پاس وقت ہے۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ ورنہ تمہارے دوسرے بیٹے کو بھی قتل کر دوں گا۔ جب اس عورت نے میری جفا کو دیکھا تو کہنے لگی: مجھ پر رحم کھاؤ۔ میرے پاس اپنے خاوند کا عطا کردہ ایک عطیہ ہے، میں وہ لے کر آتی ہوں ۔
چنانچہ وہ اندر گئی اور تھوڑی دیر کے بعد سونے کی ایک زرہ لے کر آ گئی۔ میں نے آج تک اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت زرہ نہیں دیکھی تھی۔ میں نے اسے ہاتھوں میں لیا اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ اس زرہ پر سونے کے پانی سے یہ لکھا ہوا تھا:
إِذَا جَارَ الْأَمِیْرُ وَ حَاجِبَاہُ
وَ قَاضِی الْأَرْضِ أَسْرَفَ فِی الْقَضَائِ
|