Maktaba Wahhabi

46 - 239
بلکہ مجھے اس وقت افسوس ہوا جب ان کے رویے میں تبدیلی آنے لگی اور ہر چھوٹی چھوٹی بات پر لعن و طعن لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ کی نوبت آجاتی۔ تب میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی جوانی کی نوخیز بہاروں کو لٹا بیٹھی ہوں ۔ میں غم میں ڈوب گئی اور یہ غم اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب مجھے پتا چلا کہ میں ماں بننے والی ہوں ، کیونکہ بات صرف لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ میرے شوہر ہمیشہ رات رات بھر گھر سے باہر رہنے لگے اور میں اپنے آپ کو مامون و محفوظ محسوس نہیں کرتی، جیسا کہ ہر بیوی کے لیے ہونا چاہیے اور دن بدن حالات اس طرح خراب ہوتے گئے کہ میرے سامنے خلع لینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچا۔ میں اپنے ابو کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی کہ میری شادی کرتے وقت انہوں نے میرے شوہر کے دین اور اس کے اخلاق کے بارے میں بھی معلوم نہیں کیا اور اپنی والدہ کے لیے جنہوں نے اس معاشرے کے بارے میں نہیں سوچا، جہاں میری زندگی گزرے گی بلکہ اس سے زیادہ انہوں نے مہر اور تحفہ تحائف کے بارے میں سوچا، تب میں سمجھ گئی کہ لوگ شوہر کی دین داری اور اس کے تقویٰ کے بارے میں کیوں سوال کرتے اور ان کے مال و دولت اور عہدوں کے بارے میں نہیں سوچتے، شاید اس لیے کہ جو انسان اللہ سے ڈرتا ہے وہ لوگوں کے حقوق میں بھی ڈرے گا اور لوگوں میں سب سے زیادہ قریب اس کی بیوی ہوتی ہے۔ آج میں گھر کے ان درو دیواروں کے بیچ تنہا مطلقہ کی زندگی گزار رہی ہوں جو کبھی میرے ہنستے کھیلتے بچپن کے گواہ تھے، کل تک میں ایک کھلکھلاتی اور ہنستی ہوئی بچی تھی، آج زندگی کے اندھیروں میں زخم کھا کر ڈوبی ایک طلاق شدہ عورت ہوں ، کاش! میرے والدین میری شادی کے وقت صرف دولت ہی کو نہ دیکھتے تو آج میری زندگی ان اندھیروں میں خوشیوں کی آس لگائے نہیں بھٹکتی، لیکن پھر بھی میں نا امید نہیں ہوں ، ان شاء اللہ میں زندگی کی نئی شروعات کروں گی، اپنی تعلیم مکمل کروں گی، قرآن پاک حفظ کروں گی اور اگر کبھی کسی سے شادی کروں گی تو وہ حافظ قرآن ہی ہوگا۔
Flag Counter