دوبارہ پردیس آیا تھا۔ آج مورخہ ۲۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء سے ڈھائی ماہ قبل مرشد عالم دوسری مرتبہ مال لاد کر ریاض سے تبوک گیا تھا۔ اُدھر سے واپسی میں تبوک سے اپنے ٹریلر پر گھاس لاد کر ریاض آرہا تھا۔ حائل سے ابھی ۱۵۰ کلو میٹر آگے آیا تھا کہ سامنے رکے ہوئے پنچر شدہ ٹرک سے اس کی گاڑی کا داہنا حصہ ٹکرا گیا۔ اس نے اپنی گاڑی بچانے کے لیے بائیں طرف موڑا۔ سعودی عرب میں گاڑی چلانے والوں کی سائید روڈ کے دائیں طرف ہوتا ہے۔ چونکہ روڈ جانے آنے کے لیے ایک ہی تھا۔ مرشد عالم نے جونہی اپنی گاڑی دائیں جانب موڑی سامنے سے آنے والے ٹرک سے بری طرح اس کی گاڑی ٹکرا گئی۔ اب کیا تھا۔ مرشد عالم کی اسٹیرنگ ہی پر موت ہو گئی اور اس کی گاڑی میں آگ لگ گئی۔ مرشد عالم کے ۲۰ کلو میٹر پیچھے اسی کی کمپنی کی گاڑی آرہی تھی جس کا ڈرائیور اتفاق سے اسی کی بستی کا رہنے والا محمد اسماعیل بنگلہ دیشی تھا۔ ۱۲۰ کی رفتار سے اس کی گاڑی وہاں آپہنچی اور قبل اس کے کہ اس کی بھی گاڑی ٹکراتی، اس نے فوراً گاڑی کو روڈ سے نیچے اتار دیا۔ اس کی گاڑی روڈ کے نیچے جاکر الٹ گئی۔ اب وہ مشکل سے موت کے منہ سے نکل کر اپنی بستی کے ساتھی کو ٹرک میں جلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ یہ درد ناک منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے فوراً مرشد عالم کے آگے جانے والی اسی کی کمپنی کی گاڑی کے ڈرائیور محمد سیلانی حیدر آبادی کو فون کرکے حادثے کی خبر دی اور حواس باختہ ہو کر وہیں سے ایک گاڑی میں سوار ہو کر جدہ بھاگ پڑا اور وہاں سے کسی طرح بنگلہ دیش اپنی بستی جا پہنچا۔
ادھر جب محمد سیلانی حیدر آبادی اپنا ٹرک موڑ کر جائے حادثہ پر پہنچا تو مرشد عالم کو اسٹیرنگ پر جلتا ہوا دیکھ کر اس کے بھی ہوش اڑ گئے۔ مگر آگ اس قدر بھیانک تھی کہ کوئی لاش کو زندہ یا مردہ نکالنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ وہاں حاضرین مرشد عالم کو اسٹیرنگ پر جلتا ہوا دیکھتے رہے، مگر اس کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ کچھ دیر ٹریفک پولیس ایمبولینس (Ambulance) کے ساتھ آ پہنچی اور ضروری کارروائی کے بعد لاش کے بقیہ حصہ کو لے جاکر حائل کے سرد خانے میں ڈال دیا۔
|