یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب سے بالخصوص مسلم صنعت کار اور سرمایہ دار ناواقف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلم مالکان اپنے ملازمین اور کاریگروں کی اپنے ساتھ وفاداری کے فقدان کا شکوہ کناں ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنے ملازمین کے اندر وہ اسپرٹ نظر نہیں آتا جو مذکورہ جرمن کاریگر کے اندر ہندوستانی صنعت کار نے دیکھا تھا۔
مسلم صنعت کاروں اور کمپنیوں کے مالکان کو اگر اپنے کاریگروں اور ملازموں کے اپنے ساتھ عدم وفاداری و عدم امانت داری کا شکوہ ہے تو یہ شکوہ زندگی بھر ان کو رہے گا۔ جب تک کہ وہ اپنی اصل اور بنیادی غلطی کو تلاش کرکے اس کا قلع قمع نہیں کر دیتے۔ انہیں اپنے ملازمین کے اندر وہ اسپرٹ کبھی دکھائی نہیں دے سکتا جو مذکورہ جرمن کاریگر کے اندر ہندوستانی صنعت کار نے دیکھا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جن کمپنیوں کے مالکان اپنے کاریگروں کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کی تنخواہیں جاری کرتے ہیں ، ان کے کاریگر بھی ان سے اتنے ہی زیادہ خوش رہتے ہیں ۔ ایک ہی میدان میں کام کرنے والے کاریگروں اور ملازموں کی تنخواہیں اور حقوق اگر عدل و مساوات کی بنیاد پر ملتے ہیں تو ایسے ہی ملازمین مذکورہ جرمن کاریگر کی طرح کمپنی کے نفع و نقصان کے متعلق سوچ سکتے ہیں اور پوری امانت داری اور وفاداری کے ساتھ ڈیوٹی کی خدمات انجام دے سکتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر ایک ہی میدان میں کام کرنے والے کاریگروں کی تنخواہیں الگ الگ ہوں گی اور حقوق بھی کسی کو ملیں گے اور کسی کو محروم رکھا جائے گا تو پھر ایسے مالکان کو مذکورہ جرمن کاریگر کی طرح وفادار و امانت دار ملازم کی توقع رکھنا سطح آب پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹا گون کی تصوراتی تعمیر سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔
مالکان اگر مذکورہ جرمن کاریگر کی طرح ملازمین کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے اداروں میں عدل و مساوات اور انصاف کی بنیاد پر کاریگروں کی تنخواہیں اور یکساں حقوق متعین کرنا
|