Maktaba Wahhabi

78 - 239
اس کے انکار سے مایوسی ہوئی اور نہ ہی اس نے ہمت ہاری۔ اب اس نے اپنے دیوان کی تشریح کرنا شروع کی اور اسے تصوف کا دین ہی قرار دے دیا اور کہنے لگا: پروردگار اس حسین لڑکی کی صورت میں جلوہ گر ہے، وہ اس لڑکی سے محبت نہیں کرتا، بلکہ اس کی حقیقت الٰہی اور ذات ربانی سے محبت کرتا ہے جو اس کے اندر موجود ہے۔ چنانچہ جب وہ اسے چاہتا ہے تو در اصل وہ اپنے رب کی نسوانیت اور اس کے بھڑکتے جسم کو چاہتا ہے (نعوذ باللہ)۔ مگر اس کے باوجود بھی اس غیور لڑکی نے خود کو اس کے حوالے نہیں کیا اور تصوف کا ایسا رب بننے سے انکار کر دیا جس کے اندر گناہ کا جذبہ شیطانی جوش مارتا ہو۔ ابن عربی مسلسل اس لڑکی کی محبت میں ضلالت و گمراہی کا عقیدہ پھیلاتا رہا، یہاں تک کہ یہ عقیدہ تصوف کی ایک ازلی و ابدی حقیقت کے طور پر اہل تصوف میں رائج ہو گیا۔ ابن عربی نے اس فاسد عقیدہ کو ایک زندگی بخشی اور اس کے معاصر صوفیوں اور بعد کے پیشواؤں نے اس زندیقیت کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صوفیاء لیلیٰ و سعاد اور بثینہ کی تعریف میں غزلیں گایا کرتے ہیں اور جب تم ان سے اس سلسلے میں پوچھو گے تو وہ ایسے منہ بسوریں گے اور ایسے ہونٹ ہلائیں گے جیسے وہ کہہ رہے ہوں ، بے چارہ نادان ہے، جاہل گنوار ہے، اسے کیا معلوم کہ ہمارا پروردگار ایک خوبصورت مورت ہے! یہ گمراہ اور غیر ہدایت یافتہ ہے، اسے کیا معلوم کہ ایک خوبصورت مغنیہ کا جسم ہی کوہ طور پر ہے جہاں پر الوہیت و ربوبیت کے جلوے چمکا کرتے ہیں ۔ بھلا اسے کیا معلوم کہ شہوت کی بھوکی اور تڑپتی ہوئی عورت کا جسم ہمارے رب اعظم کا ہی جسم ہے۔ اس کا گرم بدن ہمارے رب اکبر ہی کا گرم اور جلتا ہوا بدن ہے جو شہوت سے جلتا اور تڑپتا ہے۔‘‘ [1]
Flag Counter