Maktaba Wahhabi

87 - 239
مسلم خواتین اب اسی بے حیا کلچر کے اپنانے کے لیے مسلم ذمہ داروں کو کوس رہی ہیں اور ان پر یہ الزام دھر رہی ہیں کہ ہم عورتوں کو پردہ کے جال میں پھنسا کر حقوق نسواں سے یکسر محروم کر دیا گیا۔ چنانچہ وہ اب این جی اوز کی تحریک کی شہ پاکر مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے دھن میں اسی میدان میں چھلانگ لگانے کی بھر پور تیاری میں لگی ہوئی ہیں ، جس سے بے زار ہو کر اور جہاں سے اپنی لٹتی عصمت کو بچا بچا کر مغربی و یورپی خواتین گھر کی چہار دیواری میں واپس آنے کی خاطر بھاگ رہی ہیں اور بال بچوں کو پالنے پوسنے کی خواہش لیے Back to home کا نعرہ لگا رہی ہیں ۔ وہی پوشاک، وہی رہن سہن، وہی انداز، وہی طرزِ حیات، وہی خواہشات، وہی افکار، وہی نظریات، وہی دھوکے اور بے حیائی کی زندگی اب مسلمانوں کی نئی نسل کا جزوِ حیات بن رہی ہے جس کی تباہی سے مغرب بار بار چلا رہا ہے۔ جن دنوں شاہ جرمنی ’’گلیوم‘‘ نے ترکی کا دورہ کیا، انجمن اتحاد و ترقی کے ممبران نے بادشاہ کے سامنے اپنی بعض تہذیبی جھلکیاں پیش کرنی چاہئیں ، چنانچہ انہوں نے اسکول کی بے پردہ لڑکیوں کو بادشاہ کے استقبال کے لیے اس طرح پیش کیا کہ لڑکیاں پھولوں کے گلدستہ بادشاہ کو پیش کر رہی ہیں ۔ بادشاہ نے جو یہ منظر دیکھا تو اسے بڑا تعجب ہوا۔ وہ انجمن کے ذمہ داران سے یوں مخاطب ہوا: ’’میری بڑی آرزو تھی کہ میں ترکی کے اندر جاہ و حشمت اور پردہ داری کے مناظر دیکھوں ، کیونکہ تمہارے مذہب اسلام کا یہی حکم ہے۔ لیکن افسوس! میں یہاں بھی اسی بے پردگی کو اپنے چاروں طرف دیکھ رہا ہوں جس سے یورپ میں بڑی شکایتیں ہیں اور جس کی بدولت وہاں ہمارے خاندان اجڑ رہے ہیں ، وطن کی مٹی پلید ہو رہی ہے اور بچے دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں ۔‘‘[1] پھر کیا خیال ہے آپ کا، جرمنی کے اس بادشاہ کی نگاہ اگر اسکارٹ پہنی ہوئی آدھی ٹانگ کا دیدار کرانے والی اور بناوٹی مسکان سے مسافروں کا استقبال کرنے والی مذکورہ خاتون کی بے حیا پوشاک پر پڑتی تو اس کا تاثر کیا ہوتا؟
Flag Counter