Maktaba Wahhabi

230 - 239
وہ دن آ ہی گیا جب ۴۰۰ دینار بوڑھی اماں کی جیب میں تھے۔ رقم جمع کروانے کی مہلت میں صرف ایک دن باقی تھا۔ عصر ہو چکی تھی کہ وہ اکیلی ہی بسوں کے اڈے پر گئی۔ معلوم ہوا کہ آخری بس روانہ ہو چکی ہے۔ اگر مزید مسافر آ جائیں تو نئی بس روانہ ہو گی ورنہ اگلے دن جائے گی۔ اب بوڑھی عورت پریشان ہوئی کہ مجھے تو ہر حالت میں آج شام وہاں پہنچنا ہے۔ کل آخری دن ہے۔ وہ خاصی دیر تک مزید مسافروں کا انتظار کرتی رہی، مگر اس روز کوئی مسافر نہ آیا۔ اڈے پر موجود لوگ نے مشورہ دیا کہ وہ ٹیکسی سے چلی جائے۔ مسئلے کا یہی ایک حل ہے۔ چنانچہ اس نے ایک ٹیکسی والے سے کرایہ طے کیا اور ٹیکسی پر متعلقہ شہر کو چل دی۔ ڈرائیور نے بڑھیا سے اپنا پورا کرایہ وصول کر لیا تھا۔ گاڑی جانب منزل چل رہی تھی اور دونوں شہروں کا درمیانی راستہ پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ جب گاڑی رہائشی علاقے سے بہت دور نکل چکی اور صحرائی علاقے میں داخل ہونے لگی تو ڈرائیور نے بوڑھی عورت کے ساتھ گفتگو شروع کی اور پوچھا کہ اس کو کیا مجبوری تھی کہ وہ ٹیکسی پر خاصی رقم خرچ کر کے اس شہر کو جا رہی ہے۔ بوڑھی عورت نے ساری داستان سنا دی۔ جب ڈرائیور نے سنا کہ اس عورت کے پاس ۴۰۰ دینار ہیں تو اس کی نیت خراب ہو گئی۔ یہ بوڑھی عورت ہے، کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ میں راستے میں اس کا خاتمہ کر دیتا ہوں ۔ پہاڑوں کے درمیان ٹیکسی چلی جا رہی تھی کہ اچانک ایک جھٹکے سے رک گئی۔ بوڑھی اماں نے آنکھیں کھولیں ۔ کیا ہوا ہے؟ غالباً گاڑی میں خرابی ہو گئی ہے۔ اچھا میں دیکھتا ہوں ۔ ڈرائیور نیچے اترا، اس نے بونٹ اوپر اٹھایا۔ شام ہو رہی تھی، سڑک بالکل سنسان تھی۔ اس نے ڈگی سے ایک سریا نکالا۔ اماں ذرا باہر نکلو، گاڑی کو دھکا دینا ہے۔ اچھا اللہ خیر کرے، شام ہو رہی ہے۔ یہ گاڑی کیسے خراب ہو گئی؟ خوف کی ایک لہر سنسناتی ہوئی اس کے جسم سے گزر گئی۔ جب وہ باہر نکلی تو وہ بدبخت اس پر حملہ آور ہو گیا، اس کے اہتھ میں سریا تھا۔ وہ کہاں تک برداشت کرتی، کیسیے سہتی! ڈرائیور نے دینار چھین لیے۔
Flag Counter