Maktaba Wahhabi

231 - 239
بوڑھی عورت خون میں نہائی ہوئی زمین پر گری پڑی ہے، سانس چل رہی ہے، سڑک سے ذرا دور اپنی زندگی کے غالباً آخری سانس لے رہی ہے، خون مسلسل بہہ رہا ہے اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔ ادھر ٹیکسی ڈرائیور نے سوچا کہ مجھے جلد ہی یہاں سے بھاگنا چاہیے، کہیں کوئی گاڑی نہ آ جائے، میں پکڑا نہ جاؤں ۔ اس کی منزل وہی شہر تھی جہاں وہ عورت جا رہی تھی۔ جیسے ہی اڈے میں پہنچا، سواریاں اس کی منتظر تھی۔ واپس نہیں جاؤ گے؟ انہوں نے سوال کیا۔ کیوں نہیں ؟ وہ بول اٹھا۔ چند منٹ میں ٹیکسی بھر چکی تھی۔ اس نے واپسی کا رخ کیا۔ اب رات ہو چکی تھی، سڑک پر اندھیرا تھا جو آہستہ آہستہ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ قاتل جتنا بھی قوی اعصاب کا مالک ہو اس کے اندرونی احساسات اسے مسلسل زک پہنچاتے رہتے ہیں ۔ یہ تم نے کیا کر دیا! اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا جہاں اس نے بوڑھی عورت کو قتل کیا تھا اور رقم چھینی تھی تو ایک غیر مرئی طاقت نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ گاڑی روک کر اس اس عورت کو دیکھے کہ وہ مر گئی ہے یا زندہ ہے؟ اور پھر اچانک جائے وقوعہ کے قریب اس نے بریکیں لگا دیں ۔ ٹیکسی کے مسافر کچھ نیند کی وادی میں تھے، اندر اندھیرا تھا۔ اس نے گاڑی کی لائٹیں عورت پر ڈالیں تو وہ ابھی تک ہل رہی تھی۔ مسافروں نے سمجھا کہ ڈرائیور حوائج ضروریہ کے لیے نیچے اترا ہے۔ جب قریب گیا تو وہ آہستہ آہستہ کراہ رہی تھی۔ ملعون عورت، تم ابھی تک زندہ ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، ایک بڑھا پتھر نظر آیا۔ ابھی دیکھتا ہوں تم کب تک زندہ رہتی ہو۔ بوڑھی عورت نے ایک حسرت بھری نگاہ سے اسے دیکھا، رحم کی اپیل کی، مگر اس پر شیطان مکمل طور پر سوار تھا۔ وہ پیچھے ہٹا اور بڑھیا کو مارنے کے لیے اس نے پوری طاقت سے پتھر اٹھایا۔ لمحات کی دیر تھی، ابھی پتھر اس کے ہاتھوں میں تھا کہ اس نے زور دار چیخ ماری۔ پوری وادی گونج اٹھی۔ ٹیکسی کے مسافر بھی گھبرا کر باہر نکلے۔ گاڑی کی لائٹ میں عجب منظر دکھائی دیا۔ ڈرائیور زمین پر گرا تڑپ رہا تھا، ایک خوفناک اژدہا تیزی سے پہاڑ کے اوپر چڑھ رہا تھا۔ دراصل جب اس نے پتھر اٹھایا تو اس کے ساتھ ہی اژدہا تھا جس نے اسے آناً فاناً ڈس
Flag Counter