گزار رہے تھے۔ بیماری کے دوران اس کی جمع شدہ پونجی بھی خرچ ہو چکی تھی۔ تاہم جو معمولی رقم موجود تھی اس نے اپنے ایک قریبی دوست کی وساطت سے اس گھرانے کو ارسال کر دی۔ ان پر سارے قصے کو واضح کر دیا کہ وہ اس صدقے کے ذریعے اپنے مرض کا علاج کرنا چاہتا ہے لہٰذا مریض کے لیے شفا کی دعا کریں ۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سچ ثابت ہوئی اور وہ بتدریج تندرست ہوتا گیا۔
ایک دن وہ ڈاکٹروں کے بورڈ کے سامنے دوبارہ پیش ہوا۔ اس کے علاج پر مامور ڈاکٹر حیران و ششدر رہ گئے کہ اس کی رپورٹیں اس کی مکمل صحت یابی کا اعلان کر رہی تھیں ۔ اس نے بورڈ کو بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق علاج کیا ہے۔ وہ اب مکمل طور پر تندرست تھا۔ اس نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ بلاشبہ میں تقدیر پر یقین رکھتا ہوں اور اس کا یہ بھی مفہوم نہیں کہ ظاہری اسباب اختیار نہ کیے جائیں اور ڈاکٹروں سے بیماری کی صورت میں رجوع نہ کیا جائے۔ مگر حدیثِ رسول درست ہے۔ بلاشبہ ایک ایسی ذات موجود ہے جو بغیر کسی دوا کے بھی بیماروں کو صحت عطا کر سکتی ہے۔[1]
(ماخوذ از سنہرے اوراق، عبدالمالک مجاہد)
٭٭٭
|