اپنی نجات کی تدبیر کرنا شروع کی۔ ایک روز اس نے شوہر کی غیر موجودگی میں اس نوجوان کو اپنے گھر بلایا اور اس کے مطالبات پورا کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ جب وہ نوجوان خاتون کے گھر پہنچا تو خاتون نے پہلے سے تیار کیے گئے اسلحہ سے نوجوان پر تابڑ توڑ حملہ کر دیا۔ نوجوان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ خاتون نے اسے قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں تھیلیوں میں بند کرکے کچرے میں پھینک دیا۔
معاملہ کشاں کشاں عدالت تک پہنچا۔ ابھی یہ مقدمہ عدالت میں ہے۔ عدالت نے خاتون کو قصاص (موت) کی سزا سنائی ہے۔ یہ واقعہ آج سے ۶ سال پہلے پیش آیا تھا، مگر میڈیا میں اس پر بحث ۲۸ جون ۲۰۰۴ء کو ہوئی جب عدالت نے خاتون کو قصاص سزا سنائی تھی۔ خاتون کے شوہر کو اس پر فخر ہے کہ اس کی بیوی نے اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے اس نوجوان کا خون کر ڈالا۔ شوہر کی پوری ہمدردی بیوی کے ساتھ ہے۔ اب تک مقتول نوجوان اور قاتل خاتون کا مقدمہ سعودی عرب کے معروف شہر ابہاء کی عدالت میں زیر سماعت ہے اور خاتون ابہاء کی جیل میں قید ہے۔ اس ۶ سالہ مدت میں اس نے قرآن کریم حفظ کر لیا ہے۔ ابہاء جیل کی نگران نائلہ عسیری کا بیان ہے کہ قیدی خاتون رات دن اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعائیں مانگتی ہے، تہجد گزار ہے اور اپنا وقت درس و تدریس میں گزارتی ہے۔
خاتون نے چونکہ اپنی عصمت کے تحفظ میں قتل کا اقدام کیا تھا، اسی لیے دنیا کے بہت سارے غیرت مند لوگوں کی ہمدردیاں بھی اس کے ساتھ ہیں ۔ اب تک ۳ لاکھ لوگ قاتل خاتون کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ کا وزٹ کر چکے ہیں اور ۵۷ ممالک کے لوگوں نے مقتول کے خاندان سے رحم کی اپیل کی ہے۔ سعودی عرب کے مختلف قبائلی عمائدین، گورنروں ، شہزادوں ، علماء اور نامور مفکرین کے علاوہ ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے بھی مقتول کے خاندان سے قاتلہ کو معاف کرنے کی اپیل کی ہے۔ وزارت عدل کے مشیر شیخ عبدالمحسن العبیکان نے بھی مقتول کے وارثوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قاتلہ کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دیں ۔
|