Maktaba Wahhabi

130 - 239
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی عورت کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ ایک دو دن کا سفر تن تنہا کرے۔ یہ ایک دو دن کی قید تو ویسی صورت میں ہے جبکہ چاروں طرف سے عورت محفوظ ہو اور حکومت کی عوام پر اچھی گرفت ہو۔ ورنہ ہندوستان و پاکستان یا اسی طرح سے دیگر جمہوری و غیر جمہوری حکومتیں جہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج‘‘ ہے، وہاں تو بدرجہ اولیٰ کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ اکیلے ایک دو دن کا سفر اختیار کرے۔ کیونکہ ان ممالک میں جہاں عوام کو کسی قانون کا پالن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ حکومتیں بھی بے لگام اور کرپشن کی آماجگاہ ہیں ۔ ایسی صورت میں عورت کے تحفظ کا خیال اس کے کفیل اور ذمہ دار نہیں کریں گے تو دوسروں سے اس کی توقع فضول ہے۔ مذکورہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا غلط ہوا، مگر اس گندی حرکت میں پیش قدمی کرنے کا سبب در اصل اس کے ذمہ داران بھی ہیں ۔ اگر لڑکی کے ہمراہ اس کا کوئی محرم ہوتا تو اس کے ساتھ یہ مجرم ایسی گندی حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ سفر میں تنہا سفر کرنے والی عورت کے ساتھ طرح طرح کے گمبھیر مسائل و مشکلات پیش آنے کی وجہ سے ہی حج جیسے مبارک سفر پر بھی بغیر کسی محرم کے نکلنے والی خاتون کے شوہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بھیج دیا: ( (اِنْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔)) ’’جاؤ اور پہلے اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ [1] جبکہ شوہر کا نام ایک غزوہ میں لکھا جا چکا تھا اور آپ سب کو معلوم ہے کہ غزوہ میں ایک ایک آدمی کی کتنی ضرورت ہوا کرتی ہے؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس کی بیوی اپنی ہم جماعت عورتوں کے ساتھ جا رہی تھی نہ کہ اکیلے اور وہ بھی ایسے مقامات کا سفر کر رہی تھی جو اس سر زمین پر سب سے زیادہ مقدس و پاک ہیں اور وہاں عموماً اچھے لوگ ہی حاضری دیا کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر کا نام غزوہ کے رجسٹر سے خارج کرکے پہلے اپنی بیوی کو حج کرانے کا حکم دیا۔ اگر متاثرہ لڑکی کے ذمہ داران
Flag Counter