Maktaba Wahhabi

122 - 239
انتظار میں ہیں ۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ آدھے دن کی تنخواہ اس کی قیمتی جان سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور وہ اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ پٹرول کی طاقت پر Accelerater کا زوردار استعمال کرکے وقت پر آفس پہنچ جائے گا، حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جس سڑک پر وہ اپنی گاڑی دوڑا رہا ہے اس پر دوسروں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اس کا اپنا۔ سڑک جب تک خالی ہے وہ جتنی چاہے گاڑی بھگائے مگر جب سڑک پر دوسری گاڑیاں ہوں تو اسے ان کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ اسے یہ تصور لے کر اپنی گاڑی بھگانا پڑے گی کہ اس کے علاوہ بھی لوگ ہیں جن کے حقوق اسے دینے ہیں ۔ اگر کوئی اس بات کو قبول نہیں کرتا تو اسے ایک الگ کائنات بنانی پڑے گی جہاں وہ خود مختار ہوکر اپنی گاڑی کو اپنی رفتار سے بھگاتے ہوئے جہاں اور جب چاہے پہنچ جائے۔ ورنہ اگر وہ اِس کائنات میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اِسی کائنات کے مطابق اپنے اصول و ارادوں کو مرتب کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے اگر اس کی ڈیوٹی 10:00 بجے دن کو شروع ہوتی ہے تو اسے اندازہ کرکے ایسے وقت میں اپنے گھر سے نکلنا پڑے گا کہ وہ دوسروں کے حقوق دیتے ہوئے وقت پر اپنے آفس پہنچ جائے۔ اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی آدھے دن کی تنخواہ بچ جائے تو اسے راستے کے فاصلے کا تعین کرکے اپنے گھر سے نکلنا پڑے گا، تب کہیں جا کر وہ وقت پر آفس صحیح سلامت پہنچ سکے گا۔ بصورت دیگر اگر وہ ۳۵ منٹ کا فاصلہ صرف ۱۰ منٹ میں طے کرنا چاہے گا تو ۸۰ کے بجائے وہ ۱۶۰ کی رفتار سے بھی وقت پر آفس نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ وہ بے وقت گھر سے ڈیوٹی پر جانے کے لیے نکلا ہے اور اس صورت میں کئی ایک حوادث بھی اسے درپیش ہوں گے۔ بعینہٖ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ایک آدمی وقت پر اللہ تعالیٰ کے سارے حقوق بجا لائے گا تو بلاشبہ وہ جنت تک بآسانی اپنا سفر طے کر سکے گا اور پہلی فرصت میں جنت میں داخل ہو سکے گا۔ مگر بے وقت چلنے کا عادی ہو گا تو پھر اسے جنت کا راستہ نہیں مل سکے گا اور یوں وہ جنت میں بھی لیٹ سے پہنچے گا اور جنت میں لیٹ سے پہنچنے کا مطلب ہے کہ وہ جہنم کا سیر کرے جس کا درد ناک انجام سب کو معلوم ہے۔ دنیا کے آفس میں 10:05
Flag Counter