Maktaba Wahhabi

88 - 531
نے بیان کیا، کہا: مجھ سے عبد الحمید بن جعفر نے بیان کیا کہ عمران بن ابی انس نے ان سے بیان کیا کہ سلمان اغر نے ان سے بیان کیا کہ انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو خبر دیتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے… (حدیث نمبر ۱۳۹۷۔ ۵۱۳) معلوم ہوا کہ حدیث ’’لا تشد الرحال۔‘‘ معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ تین بے غبار سندوں سے مروی ہے جن میں سے صرف ایک سند میں امام زہری شامل ہیں ، بقیہ دو سندوں میں سے ایک کے راوی ابوعبد اللہ سلمان اغر اور دوسری کے راوی قزعہ بن یحییٰ بصری مولی زیاد ہیں ، تو کیا ان سب نے ایک ساتھ مل کر اسے وضع کی ہے؟ رہی دوسری حدیث ((الصلاۃ فی المسجد الاقصی تعدل ألف صلاۃ فیما سواہ۔)) تو اولاً یہ حدیث منکر ہے۔[1] ثانیاً اس کی سند میں امام زہری شامل نہیں ہیں ، ایسی صورت میں اسے گھڑنے کا الزام ان کو کس طرح دیا جاسکتا ہے؟ (۳)… گنبد صخرہ کی تعمیر کوئی قابل مذمت عمل نہیں تھی کہ اس سے عبد الملک بن مروان کے دامن کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی، لہٰذا میری نظر میں ’’السنۃ ومکانتہا فی التشریع لاسلامی‘‘ کے مصنف ڈاکٹر مصطفی سباعی اور ’’الوضع فی الحدیث‘‘ کے مصنف ڈاکٹر مبارک بن محمد بن حمد دعیلج نے عبد الملک بن مروان کو اس الزام سے بری قرار دینے اور اس کے بیٹے ولید بن عبد الملک کو اس کا مجرم ثابت کرنے کی جو سعی لاحاصل کی ہے اس سے ان کا نقطہ نظر کمزور ہوا ہے مضبوط نہیں ، شاید ان کے خیال میں یہ بات رہی ہو کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ عبد الملک بن مروان ہی نے گنبد صخرہ تعمیر کروائی تھی تو پھر اس پر یہ الزام بھی درست ہوجائے گا کہ اس نے ایسا حج بیت اللہ اور طواف بیت اللہ سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کی غرض سے کیا تھا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ گنبد صخرہ کی تعمیر کا نہ یہ ناپاک مقصد تھا اور نہ ہوسکتا تھا، یہ اس لیے نہیں کہ عبد الملک اتنا برا کام نہیں کرسکتا تھا اور اس کا بیٹا ولید کرسکتا تھا، بلکہ اس لیے کہ عبد الملک اتنا نادان اور ناعاقبت اندیش نہ تھا کہ وہ بیت اللہ کی دینی مرکزیت کو ختم کرنے کی کوشش کرکے اپنے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی رسوائی مول لیتا، ورنہ جہاں تک عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی مخالفت میں مسلمانوں کے جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے انتہائی قدم اٹھانے کی بات ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ ایسا قدم اٹھا سکتا تھا، بلکہ اس نے ایسا قدم اٹھا کر اپنا صحیفہ حیات سیاہ کیا ہے۔ کیا یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی گراں قدر اور معزز خالہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش تھی کہ آپ کعبہ مشرفہ کی عمارت کو گرا کر اس کو اسی طرز پر دوبارہ تعمیر کردیں جس طرز پر ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی تھی اور ’’حطیم‘‘ کو دوبارہ عمارت میں شامل کردیں ، لیکن دو اسباب ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس امر میں مانع تھے۔
Flag Counter