Maktaba Wahhabi

502 - 531
فَقَالَ الْقَوْمُ أَمَّا النَّعْتُ فَوَاللّٰہِ لَقَدْ أَصَابَ)) [1] ’’جس رات میں مجھے لے جایا گیا اور صبح کو میں مکہ میں رہا ، میں اپنے اس واقعہ سے گھبراہٹ میں رہا اور مجھے یہ علم تھا کہ لوگ میری تکذیب کر یں گے ، اس لیے آپ لوگوں سے الگ تھلگ غم زدہ حالت میں بیٹھ گئے ، فرماتے ہیں : پھر اللہ کے دشمن ابوجہل کا آپ کے پاس سے گزر ہوا تو وہ آکر آپ کے پہلو میں بیٹھ گیا اور آپ سے مذاق اڑانے والے کے انداز میں کہا : کیا کوئی نئی چیز ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے کہا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : آج رات مجھے لے جایا گیا ، ابوجہل نے پوچھا : کہاں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا بیت المقدس اس نے کہا : پھر تم صبح ہمارے درمیان آگئے ؟ فرمایا : ہاں ۔ آپ نے فرمایا: اس نے یہ نہیں ظاہر کیا کہ وہ آپ کو جھٹلا رہا ہے ، اس خوف سے کہ اگر وہ آپ کی قوم کو آپ کے پاس بلائے تو آپ اس بات سے انکار کر دیں ، اور کہا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہاری قوم کو بلاؤں تو تم ان سے وہی بیان کرو گے جو مجھ سے بیان کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ ابوجہل نے پکارا : بنو کعب بن لوی کے قبیلے والو!جلدی آؤ۔ آپ فرماتے ہیں ساری مجلسیں آپ کی طرف اٹھ کھڑی ہوئیں ،اور لوگ آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے ، ابوجہل نے کہا: ان سے وہی بیان کرو جو مجھ سے بیان کر چکے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے لے جایا گیا، لوگوں نے کہا: کہاں ؟ میں نے کہا بیت المقدس ، لوگوں نے کہا: پھر تم نے صبح ہمارے درمیان کی؟ فرمایا: ہاں ، آپ نے یہ بھی فرمایا: لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ تالی بجا رہا تھا اور دوسرے گروہ کے لوگ اپنے خیال میں جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اپنے سروں پر رکھے ہوئے تھے ،انہوں نے کہا : کیا تم مسجد کا نقشہ بیان کر سکتے ہو؟ لوگوں میں ایسے بھی تھے جو اس شہر کا سفر کر چکے تھے اور مسجد کو دیکھا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں نے مسجد کا وصف بیان کرنا شروع کر دیا ، یہاں تک کہ اس کا بعض وصف میرے اوپر مشتبہ ہو گیا ، آپ فرماتے ہیں : مسجد اس طرح حاضر کر دی گئی کہ میں اس کو نظروں سے دیکھنے لگا، وہ عقال یاعقیل کے گھر کے پیچھے رکھ دی گئی۔ لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم اس نے مسجد کا وصف تو درست بیان کیا ہے ۔ ‘‘ امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں صالح بن کیسان ، عن الزھری ، عن ابی سلمہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ : اسراء کے واقعہ کے بعد بہت سے لوگ فتنے میں پڑ گئے اور کچھ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ،اور ان سے اس کا ذکر کیا ، انہوں نے فرمایا: ((اشہد انہ صادق، فقالوا: وتصدقہ بانہ أتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ، ثم رجع الی مکۃ؟ قال: نعم ، إنی اصدقہ بابعد من ذلک،اصدقہ بخبر السماء ، قال: فسمی بذلک الصدیق )) [2]
Flag Counter