Maktaba Wahhabi

445 - 531
امام مالک نے جو امام زہری کے منتخب شاگردوں میں سے ایک تھے ۱۵۰ھ سے پہلے اپنی مشہور کتاب ’’مؤطا‘‘ لکھ لی تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ دوسرا عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور مؤطا کے نسخے تیار کر کے ان کو مسلم شہروں میں پھیلانا اور لوگوں کو اس میں درج حدیثوں کا پابند بنانا چاہتا تھا، مگر امام مالک نے اس کو اس کی اجازت نہیں دی[1] اور منصور نے ۱۵۸ھ میں وفات پائی۔ امام مالک ۹۳ھ مطابق ۷۱۱ء میں پیدا ہوئے اور ۱۱۴ھ میں جبکہ ابھی اپنی عمر کی ۲۱ ویں منزل میں تھے تحصیل علم سے فارغ ہو گئے۔ امام مالک نے مؤطا فقہی ترتیب پر مرتب کی ہے، انہوں نے مدینہ کے ستر فقہاء اور محدثین کے سامنے اس کو پیش کیا جن سب نے اس کو استحسان کی نظروں سے دیکھا اور اس میں درج مرویات کی صحت پر ان سے اتفاق کیا۔[2] موطا صرف مرفوع حدیثوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مرفوع حدیثوں کے علاوہ موقوف اور مقطوع روایتیں بھی ہیں ۔ موطا کی مرفوع حدیثوں کی تعداد ۶۳۶ ہے اور بقیہ روایتیں مرسل، موقوف اور مقطوع ہیں اس طرح جملہ روایتوں کی تعداد ۱۷۲۰ ہے۔ امام مالک سے موطا کی روایت کرنے والے ائمہ کی تعداد ۱۴۰۰ ہے، لیکن علماء میں اس کے جو نسخے زیادہ متداول ہیں ان میں سرفہرست اندلس کے امام حدیث یحییٰ بن یحییٰ بن کثیر لیثی متوفی ۲۳۴ھ مطابق ۸۲۸ء کا روایت کردہ نسخہ ہے۔ موطا کا دوسرا نسخہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام محمد بن حسن رحمہ اللہ متوفی ۱۸۹ھ مطابق ۸۰۴ء کا روایت کردہ ہے یہ نسخہ امام یحییٰ کے نسخے سے قدرے مختلف ہے اور اس میں امام محمد نے ہر روایت کے بعد امام ابو حنیفہ کا مسلک بھی بیان کر دیا ہے اور جس مسئلہ میں ان سے اختلاف کیا ہے اس کو بھی بیان کر دیا ہے۔ موطا کا سب سے زیادہ معتبر اور مستند نسخہ وہ ہے جو امام عبد اللہ بن مسلمہ بن قعنب حارثی قعنبی مدنی رحمہ اللہ کا روایت کردہ ہے۔ جنہوں نے ۲۲۱ھ مطابق ۸۳۵ء میں وفات پائی، قعنبی کوئی ۳۰ برس تک امام مالک کی خدمت میں رہے۔ امام مالک کے منتخب شاگردوں کی فہرست میں ایک بڑا نام امام یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر کا بھی ہے جو جلیل القدر محدث اور حافظ حدیث تھے اور انہوں نے امام مالک سے متعدد بار مؤطا سنی تھی۔ امام یحییٰ بن بکیر ۱۵۵ھ مطابق ۷۷۱ء میں پیدا ہوئے اور ۲۳۱ھ بمطابق ۸۴۵ء میں وفات پائی۔[3]
Flag Counter