Maktaba Wahhabi

441 - 531
کی مرویات ان کے پاس ہیں ۔‘‘[1] عبد العزیز بن مروان ۶۵ھ سے اپنے سال وفات ۸۵ھ تک یعنی ۲۰ برس مصر میں گورنر رہے اور کثیر بن مرہ نے ۷۰ھ اور ۸۰ھ کے درمیان کسی وقت وفات پائی، اب اگر ہم یہ فرض کر یں کہ ان کی وفات ۷۵ھ میں ہوئی تو اس کے معنی ہیں کہ عبد العزیز بن مروان نے ان سے اس سے قبل احادیث قلم بند کرنے کے لیے لکھا ہو گا اور اگر اس خبر کے ساتھ یہ بات بھی شامل کر لی جائے کہ عبد العزیز بن مروان علم اور اہل علم سے بے حد محبت رکھنے کے علاوہ خدمت دین کا غیر معمولی جذبہ بھی رکھتے تھے، تو یہ امر راجح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے مصر میں اپنی گورنری کے ابتدائی سالوں میں کثیر بن مرہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہو گا۔[2] بحرحال چونکہ کسی کتاب میں یہ مذکور نہیں ہے کہ کثیر بن مرہ نے عبد العزیز بن مروان کی درخواست پر احادیث قلم بند کر کے بھیجیں یا نہیں اور اگر بھیجیں تو کتنی اور کن صحابہ کی مرویات؟ اس لیے ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان میں سے کسی بھی سوال کا جواب دیں ، البتہ اس واقعہ سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ پانچویں خلیفۂ راشد عمر سے قبل ان کے والد ماجد عبد العزیز نے اس مبارک عمل کا آغاز کر دیا تھا اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ صحابہ کرام کے وجود سے مملکت اسلامیہ کے شہر اور قصبات منور تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تابعین ان سے کسب فیض کر رہے تھے، اور یہ معلوم ہے کہ مصر اور اس کے شہر اور قصبات میں بہت بڑی تعداد میں صحابہ کرام سکونت پذیر تھے اور ان کی خدمت میں رہ کر حدیث کا علم حاصل کرنے والے تابعین کی تعداد تو ہزاروں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اوپر یہ بات گزر چکی ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے خصوصی طور پر ابو بکر بن حزم کو اس لیے احادیث قلم بند کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں ان کے گورنر تھے، ورنہ اس مبارک ’’مشن‘‘ کے روح رواں محمد بن مسلم بن شہاب زہری تھے وہ خود فرماتے ہیں کہ ’’عمر بن عبد العزیز نے ہمین سنن جمع کرنے کا حکم دیا اور ہم نے دفتر کے دفتر سنن قلم بند کیں جنہیں انہوں نے اپنے قلم رو کے ہر ہر حصے میں بھیجا۔‘‘[3] امام زہری یوں تو غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے اور جو حدیثیں اپنے اساتذہ سے سنتے وہ ان کے لوح قلب پر نقش ہو جاتیں اس پر مستزاد یہ کہ ان حدیثوں کے درس و مدارسہ کا سلسلہ بھی جاری تھا اور سیکڑوں محبان حدیث ان سے روزانہ حدیثیں سنتے بھی تھے ایسی صورت میں حدیثوں کے ان کے ذہن سے محو ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، اس کے باوجود وہ اپنے شیوخ سے اپنی مسموعات قلم بند بھی کیا کرتے تھے، البتہ وہ دوسرے ائمہ کی طرح اپنے شاگردوں سے حدیثیں زبانی ہی روایت کرتے تھے۔
Flag Counter