Maktaba Wahhabi

440 - 531
موجود دسیوں کتابوں کا عالم واقعہ میں کوئی وجود نہیں ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتابیں ضائع ہو گئیں ؟ اس کا جواب ہے: نہیں ۔ اس مختصر جواب کی تفصیل یہ ہے کہ کتاب کی صورت میں تو ان کا کوئی وجود نہیں ہے، البتہ جہاں تک ان کے مندرجات کا معاملہ ہے تو ان میں سے تمام حدیثیں ان کے بعد متصلا مدون کی جانے والی کتابوں میں نقل کر لی گئی ہیں ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں قرآن پاک کے جو صحیفے لکھے جاتے تھے، ان کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مصحف میں جمع کر لیا گیا تھا، پھر اس کے کوئی ۲۰ برس بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قریش کے لہجے میں ان کی کتابت ہوئی، لیکن قرآن پاک کے ان تینوں مصاحف کا عالم واقعہ میں کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ خیر القرون میں بھی ان مصاحف کے زیر تلاوت رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، بایں ہمہ قرآن پاک کی تلاوت جس صحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں کی جاتی تھی اسی صحت کے ساتھ خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی کی جاتی تھی، ان کے بعد کے زمانوں میں بھی اور آج بھی، اسی طرح قرآن پاک کی جس وقت سے عام کتابت شروع ہوئی ہے اس وقت سے آج تک دنیا کے مختلف حصوں میں اس کے جو اربوں نسخے ہزاروں خطاط کے ہاتھوں لکھے گئے ہیں ان میں ایک حرف کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ ٹھیک یہی حال تدوین حدیث کا بھی رہا ہے کہ جس طرح اس کی زبانی روایت نیچے سے اوپر تک متصل ہوتی تھی اسی طرح ایک وقت میں مدون کی جانے والی حدیثوں کے مجموعوں میں سابقہ کتابوں کی حدیثیں شامل کر لی جاتی تھیں ، حتی کہ حدیث کی امہات الکتب میں ایک دوسری سے حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، البتہ ان کی سندیں ہر کتاب کے مصنف کی اپنی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ کوئی بھی صحیح حدیث چاہے وہ زبانی شکل میں روایت ہوئی ہو یا تحریری مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اب میں عمر بن عبد العزیز کے حکم پر ’’تدوین حدیث‘‘ کے بیان کی جانب دوبارہ واپس آ رہا ہوں ، لیکن اپنے قارئین کے علم میں یہ بات لے آنا چاہتا ہوں کہ عمر بن عبد العزیز کے والد ماجد عبد العزیز بن مروان متوفی ۸۵ھ نے مصر میں اپنی گورنری کے زمانے میں اپنے طور پر حدیث کی تدوین کی کوشش کی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انفرادی کتابت حدیث کے علاوہ، تدوین عمری سے پہلے ہی اس مبارک عمل کا آغاز ہو گیا تھا اور معزز باپ کے عظیم بیٹے نے جو گراں قدر کارنامہ انجام دیا وہ خوب سے خوب تر کی جانب سفر تھا آغاز سفر نہیں تھا، تفصیلات حسب ذیل ہیں : ’’امام ذھبی سیر أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ: عبد اللہ بن صالح جو جلیل القدر اور امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں امام مالک رحمہ اللہ سے بلند مرتبہ محدث اور فقیہ لیث بن سعد رحمہ اللہ کے کاتب تھے، ان سے روایت کرتے ہیں اور وہ یزید بن ابی حبیب سے کہ عبد العزیز بن مروان نے مشہور تابعی کثیر بن مرہ رحمہ اللہ کو، جو شام کے شہر حمص میں سکونت پذیر تھے اور جن کو وہاں مقیم ستر بدری صحابیوں سے شرف ملاقات اور شرف فیض حاصل تھا لکھا کہ وہ ان کے پاس ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ سے اپنی مسموعات قلم بند کر کے بھیجیں ، کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter