Maktaba Wahhabi

409 - 531
’’پھر اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کی بصراحت تصدیق کی تھی، تو یہ تصدیق اس کے قول کے معنی کی نہیں ، بلکہ اس کے اس لفظ کی تھی جو اس نے اپنی کتاب سے اپنے نبی کے حوالہ سے نقل کیا تھا اور ہم پوری قطعیت کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر نے قرطبی کی یہ عبارت بصورت تلخیص ان کی کتاب ’’المفہم‘‘ سے نقل کی ہے انہوں نے اپنی تفسیر: ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورۂ زمر کی ۶۷ ویں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ﴿وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ﴾ اور ﴿السَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ﴾ کی مجازی تفسیر یا دوسرے الفاظ میں تاویل کی ہے اور ان تعبیروں سے فنا اور زوال ثابت کرنے کی سعی مذموم کی ہے۔ انہوں نے آغاز کلام میں اس زیر بحث حدیث کا بھی ذکر کیا ہے اور صحیحین کی ایک اور حدیث کا بھی ذکر کیا ہے جس کے الفاظ ہیں : ((یقبض اللّٰہ الأرض یوم القیامۃ ویطوی السماء بیمینہ، ثم یقول: أنا الملک أین ملوک الأرض)) ’’قیامت کے روز اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ‘‘ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟‘‘[1] لیکن تفسیر میں انہوں نے وہ جارحانہ انداز نہیں اختیار کیا ہے جو انداز انہوں نے ’’المفہم‘‘ کی عبارت میں اختیار کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کی تاویل، بلکہ تحریف میں دونوں کتابوں کی عبارتوں میں مماثلت تو ضرور ہے، مگر ’’المفہم‘‘ کی عبارت زیادہ عامیانہ ہے۔ چونکہ قرطبی کی مذکورہ بالا عبارت حد درجہ گمراہ کن اور مغالطہ آمیز ہے اس لیے میں اس کا تفصیلی اور سنجیدہ جائزہ لوں گا۔ اس سے ان شاء اللہ جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق صحیح اسلامی نقطۂ نظر سامنے آ جائے گا وہیں متکلمین کی کج بحثی، ان کا بعد عن الحق اور ان کے فکر و خیال کی سطحیت بھی واضح ہو جائے گی۔ ۱۔ حدیث ((ان اللّٰہ یمسک)) یا باختلاف روایت ((ان اللّٰہ یجعل)) سے ’’تصدیقا‘‘ تک یقینا یہودی عالم کا قول ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب و تصدیق سے یہ قول حدیث رسول بن گئی ہے، جس کا اصطلاحی نام ’’تقریر‘‘ ہے اور باتفاق ائمہ حدیث تقریر بھی حدیث ہے۔ یہودی اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے بارے میں جو عقیدہ بھی رکھتے ہوں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہاں تو موضوع بحث صرف وہ ہے جو یہودی عالم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا اور اس میں اس نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں استعمال کیا تھا جس سے تشبیہ یا تجسیم کا اشارہ تک ملتا ہو۔ رہا آپ کا یہ فرمانا کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا یہودی کی جہالت پر بطور تعجب تھا‘‘ تو عرض ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ’’انگلی‘‘ کا ذکر آپ کی نظر میں جہالت تھا، تو آپ ان حدیثوں کے بارے میں کیا فرمائیں گے جن میں خود
Flag Counter