Maktaba Wahhabi

372 - 531
اپنی محنتوں سے حدیث کا مرکز بنا دیا تھا اور وہاں کے علماء اور عوام دونوں میں کتاب و سنت پر عمل کی روح پھونک دی تھی۔ جبکہ ان سے قبل اندلس میں ائمہ فقہ، خصوصاً امام مالک کی اندھی تقلید کا بڑا زور تھا۔ اس عظیم محدث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم نے علم حدیث کے حصول کے لیے مشرق و مغرب کو چھان مارا اور اپنے وقت کے ۲۸۰ سے زیادہ ائمہ حدیث سے احادیث سن کر انہیں اپنے سینے میں محفوط کیا اور آخر میں امام اہل سنت و جماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ متوفی ۲۴۱ھ سے حدیث کی سماعت کی غرض سے اندلس سے بغداد کا پرمشقت سفر کیا اور امام احمد کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا، لیکن امام احمد نے یہ فرما کر ان کی اس خواہش کی تکمیل سے معذرت کر لی کہ انہوں نے روایت حدیث موقوف کر دی ہے۔ امام بقی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ان تعریفی کلمات سے ہوتا ہے جو منفرد مقام و مرتبے کے مالک اور مجتہد مطلق امام ابو محمد علی بن احمد بن حزم متوفی ۴۵۶ھ نے ان کے حق میں لکھے ہیں ۔[1] واضح رہے کہ ’’تلقیح فھوم الأثر‘‘ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی تعداد ۵۳۷۴ہے۔ جبکہ مسند امام احمد میں ۳۸۴۸۔ تو یہ تعداد کثرت طرق یا تعداد اسناد کے اعتبار سے ہے، ورنہ ان کی حقیقی تعداد صرف ۱۵۷۹ ہے۔[2] اوپر کتابت حدیث کے جواز یا استحسان کے قائل جن صحابۂ کرام کے ناموں کا ذکر آیا ہے وہ درج ذیل کتابوں میں صحیح اور قابل اعتماد سندوں سے مذکور ہے: [3] مذکورہ صحابۂ کرام کی تواریخ ولادت اور تواریخ وفات پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے اختتام سے بہت پہلے تک کتابت حدیث کا رواج تھا یاد رہے کہ ان صحابیوں میں سب سے آخر میں وفات پانے والے انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جن کی وفات ۹۳ھ ہجری میں ہوئی، جبکہ وہ آغاز ہجرت ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شامل ہو گئے تھے۔ لیکن صحابہ کرام میں کتابت حدیث کے رواج پانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تمام صحابہ کرام یا ان کی اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یا اپنے جیسے دوسرے صحابہ سے سننے والی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے، کیونکہ لکھنے والوں کی قلت تعداد اور لکھنے کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں کی نہایت کمیابی کی وجہ سے جہاں ایسا ممکن نہیں تھا وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست یا بالواسطہ حدیثیں سننے والوں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ کسی ایک بھی حدیث کے ضائع ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، اور ٹھیک قرآن کی طرح حدیث بھی سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی رہی۔ اگر کوئی صرف ’’مکثرین صحابہ‘‘ سے احادیث روایت کرنے والے تابعیوں کی تعداد کو دیکھے تو میرے اس دعوے کی تائید میں پس و پیش نہیں کرے گا کہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نہ قرآن و حدیث کی تشریعی حیثیتوں میں کوئی فرق
Flag Counter