Maktaba Wahhabi

337 - 531
اندیشہ ہے کہ کہیں پورا قرآن ہی ضائع نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ اپنے اندر دو نہایت اہم پہلو رکھتا ہے: ۱:…صحابہ کرام کے نزدیک اصل اعتماد حفظ سینہ ہی پر تھا، حفظ سفینہ محض احتیاط مزید کا درجہ رکھتا تھا۔ ۲:…صحابہ کرام کی اکثریت حافظ قرآن نہ تھی اور جو قرآن کے حفاظ تھے بھی ان کی اکثریت بھی ایسی تھی جن کو پورا قرآن نہیں ، بلکہ اس کے اجزا یاد تھے اس وجہ سے ان کا لقب ’’حفاظ‘‘ کے بجائے ’’قراء‘‘ تھا، یعنی ﴿اکثرھم قرآناً﴾ رہی حدیث تو اس کا بہت بڑا حصہ صحابہ کرام کی تعبیرات سے عبارت تھا جو نہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام تھا اور نہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، تھی تو حدیث بھی دین ہی، مگر اس کی ’’حرفیت‘‘ کے محفوظ رہنے پر دین کے محفوظ رہنے کا مدار نہیں تھا۔ اب جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کا تعلق ہے تو اگرچہ صحابہ کرام اس کی روایت اور نقل میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے اور اس کو دوسروں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں ہی پہنچاتے تھے، لیکن قولی حدیث کی ’’حرفیت‘‘ بھی اس درجہ مطلوب نہ تھی جس درجہ قرآن کی حرفیت مطلوب تھی اور قولی حدیث کے بعض الفاظ کے بدل جانے سے اگر معنی میں کوئی تبدیلی نہ ہو ، دین کی بقا متاثر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر یہ بات بھی معلوم رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی بات اور ایک ہی مسئلہ مختلف الفاظ اور اسلوبوں میں بیان فرماتے رہتے تھے؛ کبھی اجمالا اور کبھی تفصیلاً۔ مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ’’قراء‘‘ کی شہادت کی خبر سے عمر رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ کیوں لاحق ہو گیا تھا؟ مزید یہ کہ حدیث چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا عمل جاری تھا، وہ جہاں سینوں میں محفوظ ہو جاتی تھی وہیں عمل کی شکل میں بھی گردش کرتی رہتی تھی، اگرچہ وحی متلو نہ تھی اور جو لوگ حدیث کی روایت کرتے تھے ان سے زیادہ اس کا علم رکھنے والے ایسے صحابہ تھے جو اس کی روایت نہیں کرتے تھے اور اگر کرتے بھی تھے تو ضرورت کے وقت اس تناظر میں حدیث کے ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ ۳۔ اس فقرے میں ڈاکٹر افتخار برنی نے قرآن کی حفاظت اور سالمیت کے حوالے سے جس حق الیقین کا دعوی کیا ہے وہ ’’حب قرآن‘‘ کے جذبے سے نہیں ، بلکہ ’’بغض حدیث‘‘ کے جذبے سے ہے، کیونکہ اولاً تو ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن پاک کی کوئی آیت یا سورت سنتے تھے اس کے بارے میں ان کو یہ حق الیقین ہوتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کلام ہے اور جن لوگوں کو یہ آیت یا سورت ان کے واسطے سے پہنچی تھی ان کو بھی اس کے کلام الٰہی ہونے کا حق الیقین ہوتا تھا، لیکن جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
Flag Counter