Maktaba Wahhabi

336 - 531
جانے کا جو اندیشہ ہوا وہ اندیشہ ان کو حدیث کے ضائع ہو جانے کا نہیں ہوا اس سے بقول اس کے یہ پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام کی نظر میں قرآن و حدیث کی قدر و قیمت یکساں نہیں تھی۔[1] ڈاکٹر برنی اور ابوریہ کی ان ہرزہ سرائیوں میں سے بعض کا جواب گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے، کچھ کا جواب ان شاء اللہ اس وقت دوں گا، رہی کتابت حدیث تو اس مسئلہ پر ان شاء اللہ تعالیٰ مفصل بحث کتابت حدیث کے زیر عنوان کروں گا، لیکن کچھ عرض کرنے سے قبل ان دونوں کے دعووں کا پوری امانت داری کے ساتھ نمبروار خلاصہ نقل کر دینا چاہتا ہوں تاکہ ہر دعوی کا جواب برمحل مل جائے۔ ۱۔ احادیث کی کتابت یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شروع ہو چکی تھی، مگر ان کی اصل تدوین کا کام عباسی خلفاء کے زمانے میں انجام پایا۔ ۲۔ جنگ ردہ میں قرآن کے قراء کے بڑی تعداد میں شہادت پا جانے کے موقع پر عمر رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کا تو مشورہ دیا، لیکن حدیث جمع کرنے کا مشورہ نہیں دیا… ۳۔ قرآن کی حفاظت اور INTEGRITY کے حوالہ سے روز اول سے حق الیقین کا معاملہ رہا ہے۔ ۴۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور سورہ کے بارے میں اللہ کا چیلنج ہر زمانے کے لیے موجود رہا ہے کہ ایسی کوئی مثال پیش کر کے دکھائی جائے۔ ۵۔ قرآن کے قولی تواتر کے ساتھ اس بات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے کہ کسی بھی آیت کے بارے میں ابہام یا تردد کی صورت میں اصل متن یا TEXT سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا دعووں میں سے دعویٰ نمبر ۱ کا مفصل جواب اپنے موقع اور مقام پر دیا جائے گا، رہے بقیہ تین دعوے تو ان میں سے ہر ایک کا نمبر وار جواب حسب ذیل ہے: ۱۔ جنگ یمامہ میں قرآن پاک کے ’’قراء‘‘ کے بکثرت شہادت پا جانے کے نتیجے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا جو خوف اور اندیشہ عمر رضی اللہ عنہ کو دامن گیر ہوا وہ بالکل قدرتی تھا، اس لیے کہ قرآن پاک کا حرف حرف اور لفظ لفظ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یہ صحیح ہے کہ قرآن پاک میں سابقہ نبیوں اور ان کی قوموں کے واقعات روایت بالمعنی کے ضمن میں آتے ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے واقعات اور باتیں مختلف الفاظ اور تعبیروں میں بیان کی گئی ہیں ، مگر یہ بھی سب اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہیں اور قرآن کے کسی ایک حرف کا ضائع ہو جانا، نقص دین سے عبارت تھا اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ اول کو یہ مشورہ دیا کہ قرآن کے جو اجزاء مختلف صحیفوں کی شکل میں قلم بند ہیں ان کو ترتیب کے ساتھ یکجا ضبط تحریر میں لے آیا جائے، کیونکہ اگر قرآن کے ’’قراء‘‘ کی شہادت کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو
Flag Counter