Maktaba Wahhabi

258 - 531
ابو بکر محمد بن اسحاق کلا بازی، ابو عبدالرحمن محمد سلمی، ابو محمد عبدالقادر بن عبداللہ جیلی اور شیخ ابو اسماعیل ہروی، ہروی نے تو علم کلام اور متکلمین کی مذمت میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’ذم الکلام واہلہ‘‘ (۲) ماتریدی: ماتریدی علم کلام کے بانی ابو منصور محمد ماتریدی متوفی ۳۲۳ھ ہیں ان کا تعلق سمر قند سے تھا، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے تفسیر میں تاویلات اہل السنۃ اور عقیدے میں کتاب التوحید کو خاص شہرت حاصل ہے۔ ماتریدی کے حنفی المذہب ہونے کی وجہ سے حنفی مفسرین، محدثین، فقہاء اور صوفیا عقائد میں ماتریدی اسکول سے وابستہ رہے ہیں اور اب تک ہیں ، برصغیر کے علمائے احناف تو اپنے عقائد کے بیان میں ماتریدی العقیدہ ہونے کی تصریح کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ، اس طرح اہل سنت وجماعت سے اپنی عدم نسبت پر خود ہی مہر لگا دیتے ہیں ۔ اشاعرہ کے عقائد ایک نظر میں : اشاعرہ جن عقائد میں اہل سنت وجماعت سے اختلاف رکھتے ہیں ان میں سے چند کی مثالیں دینے سے قبل یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ جس شخصیت سے نسبت کی وجہ سے اس عقائدی اسکول کو اشعری کا نام دیا گیا ہے، یعنی امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تو ان کے اس اسکول سے اپنی براء ت کا اعلان کر دینے کے بعد اس کو اشعری اسکول کہنا درست نہیں رہ گیا ہے اور ان کا دامن اشاعرہ کی گمراہیوں سے پاک ہے، چنانچہ اپنی آخری عمر میں ’’الإبانۃ عن اصول الدیانۃ‘‘ لکھ کر اس میں اپنے سابقہ عقائد سے کنارہ کش ہونے اور اہل سنت وجماعت کا مسلک اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپنے عقائد میں دو مرحلوں سے گزر کر تیسرے مرحلے میں اسلاف کے عقائد پر ان کے ثابت قدم ہو جانے کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ (۱)… پہلے مرحلے میں انہوں نے اپنے شیخ ابو علی جبائی سے علم کلام کی تحصیل کی جو معتزلہ کے امام تھے اور ۴۰ برس تک پرجوش معتزلی رہے، پھر مسلک اعتزال سے علیحدگی اختیار کر لی، چنانچہ جمعہ کے دن بصرہ کی مسجد میں برسر منبر بآواز بلند اعلان کیا: جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا تو سن لے کہ میں فلاں ابن فلاں ہوں ، میں قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل تھا اور میرا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا اور بندے اپنے افعال کے خالق ہیں اور اب میں اعتزال سے تائب ہو کر ان کے عقائد کو رد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں پھر انہوں نے ایک ایک کر کے معتزلہ کے تمام عقائد کو باطل قرار دیا۔ (۲)… دوسرے مرحلے میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سات عقلی صفات: زندگی، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام کا اثبات کیا اور خبری صفات: وجہ، ید، قدم، اور ساق وغیرہ کے بارے میں کہا کہ یہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں ، بلکہ مجازی معنوں میں ہیں یعنی ان کی تاویل ضروری ہے۔
Flag Counter