Maktaba Wahhabi

257 - 531
نہیں ہے کہ کسی صحابی نے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں کوئی درجہ بندی کرکے کسی کو مانا ہو اور کسی کا انکار کیا ہو یا کسی کا حقیقی معنی مراد لیا ہو اور کسی کا مجازی۔ صحابہ کے علاوہ تمام ائمہ حدیث اور ائمہ اربعہ بھی توحید اور اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے مسئلہ میں اسی عقیدے اور مسلک پر قائم رہے جو صحابہ کرام کا عقیدہ ومسلک تھا اور وہ کتاب وسنت میں مذکور تمام اسماء اور صفات کو ان کے حقیقی معنوں ہی میں لیتے تھے۔ لیکن خوارج اور معتزلہ کے ظہور کے بعد جب متکلمین پیدا ہوئے تو کہنے کو تو یہ لوگ اسلامی عقائد کے دفاع اور معتزلہ کی تشکیکات اور تاویلات کے ردو ابطال کی صفت سے موصوف ومشہور ہوئے، مگر حقیقت میں جہاں انہوں نے صرف چند اسماء و صفات کو مانا اور بقیہ کو رد کر دیا وہیں انہوں نے قرآن پاک کی آیات صفات میں تاویل کرکے ان کو ان کے ظاہر یا حقیقت کے بجائے مجاز پر محمول کیا ہے، کیونکہ ان کے زعم باطل میں ان صفات کے حقیقی معنی مراد لینے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت لازم آتی ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے اس کے ارشاد: ﴿لیس کمثلہ شیء﴾ اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے، کی روشنی میں حقیقی معنی مراد لینے سے اللہ اور بندوں کے درمیان معمولی سی بھی مشابہت لازم نہیں آتی، جبکہ اس کی صفات کی تاویل سے ان کا ابطال اور انکار لازم آتا ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ، وجہ چہرہ، اور نفس، ذات یا صفت، ثابت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قران میں اپنے لیے ید، وجہ اور نفس کا ذکر فرمایا ہے تو یہ سب اس کی ایسی صفات ہیں جو کیفیات سے پاک ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے ہاتھ سے اس کی قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے میں اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے۔ [1] اشعریہ وما تریدیہ: مسلمانوں میں متکلمین کے دو فرقے یا گروہ پائے جاتے ہیں ، ایک اشعری فرقہ یا گروہ یا اسکول ہے، اور دوسرا ماتریدی، اشعری اسکول کے بانی ابو الحسن اشعری متوفی ۳۲۴ھ ہیں ، اشعری کے شافعی المسلک ہونے کی وجہ سے شافعی اور حنبلی مسلکوں سے نسبت رکھنے والے متکلمین اسی اسکول سے وابستہ رہے ہیں اور ہیں مثال کے طور پر قاضی ابو بکر محمد باقلانی، ابو المعالی عبدالملک جوینی امام الحرمین، ابو حامد غزالی، فخر الدین رازی اور ابو الفتح عبدالکریم شہر ستانی کا شمار اکابر اشعر یوں میں ہوتا ہے، یاد رہے کہ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہ اللہ علم کلام اور متکلمین کے سخت خلاف تھے۔ جن صوفیا کا شوافع اور حنابلہ سے تعلق ہے وہ بھی عقائد میں اشعری اسکول سے وابستہ رہے ہیں اور اب تک ہیں ۔ بایں ہمہ اکابر صوفیا میں جہاں بہت سے لوگ توحید اور ذات وصفات میں اشعری عقیدے پر رہے ہیں ، جیسے ابو القاسم قشیری وغیرہ تو ارباب تصوف میں ایسے بزرگوں کا نام بھی ملتا ہے جو علم کلام اور متکلمین سے سخت پر خاش رکھتے تھے، جیسے
Flag Counter