Maktaba Wahhabi

246 - 531
گرفت کی اور فرمایا: ((یا ابن الخطاب! فلا تکونن عذاباً علی اصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم)) ’’اے خطاب کے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر عذاب مت بنو۔‘‘ (۲۱۵۴۔ ۳۷۔) بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ تعجب سوالیہ انداز میں فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم میرے اوپر مخفی رہا؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: بازاروں میں خرید و فروخت نے مجھے غافل رکھا۔‘‘[1] مطلب یہ ہے کہ کاروبار تجارت میں مصروف رہنے کی وجہ سے میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طول رفاقت سے دور رہااور دوسروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیثیں سنیں جو میں نہ سن سکا۔‘‘ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کہنے لگے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور بیدار کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ہاتھ پاؤں یا منافقین کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے۔(ابن ماجہ: ۱۶۵۰) گویاانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر کو منافقین کی افواہ قرار دے ڈالا مگر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کردیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور اپنی زبان مبارک سے اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ بیان کیا کہ: ((من کان منکم یعبد محمداً فان محمد اً قد مات ومن کان یعبداللّٰه فاٰن اللّٰه حی لایموت)) ’’تم میں سے جو محمد کی عبادت کر رہا تھا تو محمد وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کررہا تھا تو یقینا اللہ زندہ ہے جس کو موت نہیں آئے گی۔‘‘ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر۱۴۴ اور سورۂ زمر کی آیت۳۰ کی تلاوت کی: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا ﴾ (آل عمران: ۱۴۴) ’’اور محمد تو صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ، تو کیا اگر وہ وفات پاجائے یا قتل کردیا جائے تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔‘‘ ﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ﴾ (الزمر: ۳۰)
Flag Counter