Maktaba Wahhabi

245 - 531
دار قطنی نے تو یہ صراحت کردی ہے کہ’’سنت ‘‘ یقینا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس تھی۔ اور جس شخص کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معمولی سی بھی واقفیت ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ گواہی دے سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں تھی جس میں تین طلاقوں کے ذریعہ نکاح کے بندھن سے آزاد کردی جانے والی عورت کے لیے شوہر پر رہائش اور خرچ دینا فرض قرار دیا گیا ہو، کیونکہ عمر دوسروں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے، اگر ان کے پاس اس مسئلہ میں کوئی حدیث ہوتی تووہ اس کی تبلیغ کے خواہش مند ہوتے نہ کہ اس کے کتمان یا عدم تبلیغ کے۔[1] واضح ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو بظاہر اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف پا کر رد کردیا تھا، جبکہ یہ حدیث مطلقہ ثلاثہ سے متعلق ہونے اور ارشاد الٰہی کے مطلقہ رجعیہ سے متعلق ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف نہیں تھی اور ایسا سمجھ لینے اور اس کی بنیاد پر کوئی حکم لگا دینے کی غلطی بڑے سے بڑا انسان بھی کبھی کبھار کربیٹھتا ہے، کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی بھی فکرو اجتہاد میں غلطی سے محفوظ نہیں ہے۔ جن لوگوں کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اور ان کے جذباتی مزاج پر نظر ہوگی ان کو یہ معلوم ہوگا کہ اس زیر بحث حدیث کے علاوہ دوسرے چند ایک مواقع پر بھی اس طرح کے موقف اور رویہ کا ان سے اظہار ہوچکا ہے اور ٹوک دینے یا یاد دلانے پر انہوں نے اپنے رویہ سے رجوع کرلیا ذیل میں اس کی چند مثالیں درج کی جا رہی ہیں : ۱۔ صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ انصار کی ایک مجلس میں موجود تھے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ خوف زدہ حالت میں آئے اور گویا ہوئے: ’’میں نے عمر سے اندر آنے کی تین بار اجازت طلب کی اور جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس لوٹ گیا اور جب عمر نے ان سے انتظار نہ کرنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: میں نے تین بار اجازت طلب کی تھی، اور جب مجھے اجازت نہیں دی گئی تو واپس چلا گیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو وہ لوٹ جائے ‘‘ اس پر عمر نے کہا: اللہ کی قسم! تم پر لازم ہے کہ تم اس کی کوئی دلیل پیش کرو ‘‘ صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے: و رنہ میں تمہیں لوگوں کے لیے درس عبرت بنا دوں گا۔‘‘[2] انصار کی اس مجلس میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے فرمایا: ابو موسیٰ کے ساتھ قوم کا سب سے کمسن شخص جائے، حضرت ابو سعیدی خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں قوم میں سب سے کمسن ہوں ، فرمایا: تم ان کے ساتھ جاؤ ‘‘ میں ان کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور مذکورہ حدیث سننے پر گواہی دی۔‘‘ اس کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ خود عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے رویہ پر ان کی سخت
Flag Counter