Maktaba Wahhabi

236 - 531
مگر جہاں اپنی کور دبتی ہو’’دم دبا کر‘‘ وہاں سے گزر جانے میں عافیت سمجھتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی دلداری میں بیت المقدس کو خود ہی قبلہ مقرر فرما دیا تھا تو پھر کعبۂ مشرفہ کے قبلہ بنائے جانے کے اتنے مشتاق کیوں رہتے تھے کہ بار بار آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر وحی الٰہی کے نزول کا انتظار کرتے رہتے تھے؟!!! ۳۔ ’’وما جعلنا ‘‘ کی تعبیر اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی متلو بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم دیا تھا جو حکم قرآن میں ثبت نہیں کیا گیا اور اس کی تلاوت منسوخ کردی گئی، مگر حکم پندرہ برسوں تک باقی رہا، پھر قرآن ہی کے ذریعہ اس حکم کو منسوخ کردیا گیا۔ اور اگر یہ حکم وحی غیر متلو کے ذریعہ دیا گیا تھا جس کو ہم حدیث یا سنت کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے’’وما جعلنا ‘‘ فرما کر یہ اعلان فرما دیا کہ قرآن کی صورت میں اس کا نازل کردہ حکم اور حدیث کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ حکم میں سرمو فرق بھی نہیں ہے اور دونوں کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہونے، اور دونوں کے وحی الٰہی ہونے کی وجہ سے دونوں یکساں درجے میں واجب العمل ہیں ۔ ۴۔ جو لوگ کسی شرعی حکم کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے بیت المقدس کو قبلہ بنائے جانے کا واقعہ ان کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اپنا حکم قرار دے کر اس کی پیروی کو ایمان اور اس کی خلاف ورزی کو ارتداد سے تعبیر کیا ہے: ’’لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ‘‘ میں اوپر یہ ذکر کر چکا ہوں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منسوخ آیت رجم اور منسوخ آیت نسب کا اعلان منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا جس کو اجلہ صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد نے سنا اور خاموش رہ کر اس کی تصدیق کی صرف اتنی تفصیل اس حدیث کے صحیح اور قابل اعتبار ہونے کے لیے کافی تھی، مگر سطور بالا میں میں نے ان کے افکار وخیالات سے ٹکرانے اور متصادم ہونے والی صحیح حدیثوں کے بارے میں ان کے موقف اور طرز عمل کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان سے یہ یقین محکم ہوجاتا ہے کہ منکرین حدیث کا یہ جدید طبقہ دراصل حدیث سے اس وجہ سے بغض اور نفرت رکھتا ہے کہ حدیث ان کی من مانی قرآنی تاویلات اور عقائد و عبادات سے متعلق ان کی من گڑھت تعبیرات اور اصلاحوں کا پول کھول دیتی ہے۔ جس حدیث میں منسوخ آیت رجم اور منسوخ آیت نسب کا ذکر آیا ہے اگر وہ طویل اور میرے موضوع بحث سے خارج نہ ہوتی تو میں اس کا طویل مطالعہ پیش کر کے اس کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرتا اور یہ دکھاتا کہ صاحب الہام عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں جن اندیشوں کا ذکر فرمایا ہے وہ ان کی شہادت کے کچھ ہی دنوں بعد ظہور پذیر ہونے لگے تھے اور مختلف رنگوں اور ڈھنگوں سے ان کے ظہور کا سلسلہ جاری ہے، مگر اسلام کے ان نئے’’بہی خواہوں ‘‘ کو بے نقاب
Flag Counter