Maktaba Wahhabi

235 - 531
قرآن یا حدیث کی کسی نص کے’’محو اور بھلا دیے جانے ‘‘ کے باوجود اس کے حکم کے باقی رہنے اور ایک عرصہ تک واجب العمل رہنے پر شاہد ہے میری مراد’’بیت المقدس ‘‘ کو قبلہ بنائے جانے کے واقعہ سے ہے جس کی تفصیلی اور اس سے استدلال درج ذیل ہے۔ قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہجرت مدینہ کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آنے تک نماز میں مسلمانوں کا قبلہ’’بیت المقدس ‘‘ رہا، حدیث کے مطابق کوئی ۱۵سال تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، اسلام میں نماز کے مقام ومرتبے اورصحت نماز کے لیے قبلہ رو ہونے کے حکم کو ذہن میں تازہ رکھتے ہوئے اس سوال کا جوب تلاش کیجیے کہ’’اتنے اہم اسلامی عمل کا ماخذ کیا تھا جو بحیثیت مسلمان باقی رہنے کی بنیادی شرط کا درجہ رکھتا ہے؟ قرآن میں یہ حکم موجود نہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی ا س کا کوئی ذکر نہیں ہے، جبکہ یہ ایمان راسخ اور یقین قاطع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کہ آپ اور آپ پر ایمان لانے والے اپنی نمازوں میں بیت المقدس کو قبلہ بنائیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم قرآن کی صورت میں وحی متلو کے ذریعے یا وحی غیر متلو، حدیث کے ذریعہ دیا تھا؟ قرآن و حدیث میں اشارۃ بھی اس کا ذکر نہیں ملتا، البتہ قرآن یہ تصریح کرتا ہے کہ بیت المقدس کوقبلہ اللہ تعالیٰ نے قرار دیا تھا ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ﴾ (البقرہ: ۱۴۳) ’’اور جس قبلہ پر تم عمل پیراتھے اس کو ہم نے قبلہ بنایا ہی اس لیے تھا کہ ہم یہ جان لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔‘‘ یہ آیت مبارکہ چند نہایت اہم امور پر دلالت کرتی ہے: ۱۔ بیت المقدس کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے صریح حکم کے ذریعہ قبلہ قرار دیا تھا جس پر’’وما جعلنا ‘‘ دلالت کرتا ہے۔ ۲۔ ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی نے جو یہ لکھ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کی ہمنوائی کرتے ہوئے بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا، اور آپ اہل کتاب سے صرف انہی امور میں اختلاف کرتے تھے جن کے حق میں وحی نازل ہوتی تھی۔ (البرھان فی نظام القرآن،ص:۱۵۸) تو ڈاکٹر صاحب کی یہ بہت بڑی بھول ہے جو فہم قرآن کے ان کے بلند بانگ دعوؤں سے ہم آہنگ نہیں ، انہوں نے یہ ناقابل التفات بات کچھ تو اپنی اپج اورکچھ الدرلمنشور اور وفاء الوفاء پر اعتماد کر کے لکھ دی اور ارشاد ربانی: ’’وما جعلنا ‘‘ کو نہیں دیکھا اور جب اس آیت کی تفسیر کا موقع آیا جس میں ’’وما جعلنا ‘‘ آیا ہے تو خاموشی سے گزر گئے یہ منکرین حدیث کا خاص انداز ہے، ان کے دعوے بڑے بلند ہوتے ہیں ، مغالطے دینے میں بھی بڑے طاق ہوتے ہیں ،
Flag Counter