Maktaba Wahhabi

174 - 531
قالت: رد اللّٰہ کید الکافر۔ او الفاجِر۔ فی نحرہ، واخدم ھاجرَ۔ قال ابو ھریرۃ: تلک أمکم یا بنی ماء السماء)) ’’ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا: ہم سے حماد بن زید نے، ایوب سے، انہوں نے محمد سے اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، انہوں نے کہا: ابراہیم علیہ السلام صرف تین بار جھوٹ بولے جن میں سے دو جھوٹ تو اللہ عزوجل کے بارے میں تھے؛ آپ کا یہ قول: میں بیمار ہوں ۔ (الصافات: ۸۹) اور آپ کا یہ قول: بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے۔ ‘‘ (الانبیاء: ۶۳) اور کہا: ایک روز جبکہ وہ اور سارہ ساتھ ساتھ تھے وہ جابر حکمرانوں میں سے ایک جابر کے ہاں گئے، جس کو یہ بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ہے جس کے ساتھ ایک نہایت حسین عورت ہے۔ اس جابر حکمراں نے ان کو بلا بھیجا اور ان سے سارہ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میری بہن۔ پھر وہ سارہ کے پاس واپس آئے اور فرمایا: سارہ! زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے، اور اس نے مجھ سے تمہارے متعلق دریافت کیا تھا تو میں نے اس کو بتایا کہ تم میری بہن ہو، لہٰذا مجھے جھوٹا نہ ٹھہرانا۔ اس جابر حکمراں نے سارہ کو بلا بھیجا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کو اپنے ہاتھ سے پکڑنا چاہا۔ تو اس کا ہاتھ بندھ گیا۔ اس نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اس کا ہاتھ کھل گیا، پھر اس نے دوبارہ ان پر دست درازی کرنی چاہی تو اس کا ہاتھ پہلے کی طرح یا اس سے زیادہ سختی سے بندھ گیا، اس نے کہا: اللہ سے دعا کرو میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا، انہوں نے دعا کی اور وہ آزاد ہو گیا۔ اس پر اس نے اپنے ایک دربان کو بلا کر اس سے کہا: تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں ، بلکہ شیطان کو لائے ہو، پھر ان کی خدمت کے لیے ان کو ہاجرہ کا تحفہ دیا۔ اس کے بعد سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس حال میں واپس ہوئیں کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا : کیا خبر ہے؟ سارہ نے جواب دیا: اللہ نے کافر …یا فاجر…کیچال اسی پر الٹ دی اور اس نے میری خدمت کے لیے ہاجرہ کو عطیہ دیا ہے۔‘‘ ابو ہریرہ نے یہ حدیث سنانے کے بعد کہا: اے آسمانی پانی والو! یہی تمہاری ماں ہیں ۔‘‘[1] اس حدیث میں جن تین باتوں کو ’’جھوٹ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ان میں سے دو کا ذکر خود قرآن پاک میں بھی آیا ہے اور حدیث میں ان کی صراحت بھی ہے۔ صرف تیسری بات حدیث میں آئی ہے اس کے باوجود مدعیان عقل نے اس حدیث کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا کیا ہے وہ ان کی حق پسندی نہیں ان کی حق دشمنی پر دلالت کرنے کے ساتھ ساتھ
Flag Counter